کم کھانے کے باوجود موٹاپے کا شکار بنانے والی عام عادت دریافت

کیا آپ جسمانی وزن میں اضافے یا توند نکلنے سے پریشان ہیں؟

اگر ہاں تو ہو سکتا ہے کہ ایسا آپ کی ایک عام عادت کا نتیجہ ہو۔

یہ انتباہ کچھ عرصے قبل ایک طبی تحقیق میں سامنے آیا جس میں بتایا گیا کہ کم کھانے یا ورزش کرنے کے باوجود موٹاپے یا توند نکلنے جیسے مسائل کے پیچھے لوگوں کی ایک عام غذائی عادت چھپی ہوتی ہے۔

امریکا کے Brigham and Women’s Hospital کی تحقیق میں بتایا گیا کہ رات گئے کھانا کھانے کی عادت براہ راست جسمانی وزن میں اضافے کا باعث بنتی ہے جبکہ جسمانی چربی ذخیرہ کرنے کا طریقہ بھی بدل جاتا ہے۔

اس سے قبل بھی تحقیقی رپورٹس میں کھانے کے اوقات اور جسمانی وزن میں تعلق کو دریافت کیا گیا تھا مگر اس تحقیق میں زیادہ باریک بینی سے جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق میں 16 ایسے افراد کو شامل کیا گیا جن کا جسمانی وزن زیادہ تھا یا وہ موٹاپے کے شکار تھے۔

ہر فرد کے ساتھ 6، 6 دن کے 2 تجربات کیے گئے اور اس کے بعد کئی ہفتوں تک غذا کو سختی سے کنٹرول کیا گیا۔

ایک تجربے میں رضاکاروں کو دن بھر میں 3 مخصوص اوقات میں کھانے کی ہدایت کی گئی، یعنی ناشتہ صبح 9 بجے، دوپہر کا کھانا ایک بجے جبکہ رات کا کھانا شام 6 بجے کھلایا گیا۔

دوسرے تجربے میں رات کا کھانا زیادہ تاخیر سے کھانے کی ہدایت کی گئی۔

دونوں تجربات کے دوران رضاکاروں کے خون کے نمونوں لیے گئے جبکہ سوالنامے بھروائے گئے۔

نتائج سے معلوم ہوا کہ رات گئے کھانے سے جسم کی چربی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں تبدیلی آئی اور چربی زیادہ جمع ہونے لگی۔

اس کے ساتھ ساتھ بھوک زیادہ لگنے لگی جبکہ جسم کم کیلوریز جلانے لگا، یہ دونوں عناصر جسمانی وزن میں اضافے اور توند نکلنے کا خطرہ بڑھاتے ہیں۔

محققین نے بتایا کہ موٹاپے سے دیگر طبی مسائل جیسے ذیابیطس اور کینسر کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ رات کا کھانا جلد کھانے سے جسمانی توانائی میں توازن پیدا ہوتا ہے جبکہ موٹاپے کا خطرہ کم ہو جاتا ہے، جبکہ لوگوں کے لیے ورزش کرنے یا صحت بخش غذا کے استعمال جیسی عادات کو برقرار رکھنا بھی آسان ہو جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اب ہم جان چکے ہیں کہ رات گئے کھانے کی عادت سے موٹاپے، توند نکلنے اور جسمانی وزن میں کمی لانے میں ناکامی کے خطرات کیوں بڑھ جاتے ہیں۔

اب محققین زیادہ بڑے پیمانے پر تحقیق کو آگے بڑھانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں جس میں رویوں اور ماحولیاتی عناصر کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔

اس تحقیق کے نتائج جرنل سیل میٹابولزم میں شائع ہوئے۔