نیا نا پرانا ،ویلکم ٹو قائد اعظم کا پاکستان

شاعر کہتا ہے :
جدا ہوں دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
مگر بدقسمتی سے مملکت خدادپاکستان میں سیاست کا ڈھب ہی الگ ہے۔ پاکستانی سیاسی زندگی میں قوم نے وہ وہ کمالات دیکھے جن کا کبھی سوچا بھی نہیں جا سکتا۔ ایسا ہی کچھ 9 اپریل 2022 کو دیکھ نے کو ملا ۔ ملکی سیاسی تاریخ میں وزارت عظمیٰ کی مدت پوری کرنے کا ریکارڈ تو حسب روایت نہ ٹوٹ سکا البتہ پاکستان میں پہلی مرتبہ وزارت عظمیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور اس سنسنی خیز انداز میں کامیاب ہوئی کہ ہر لمحہ کبھی حزب اقتدار کے چہرے لٹکتے رہے اور کبھی حزب اختلاف کے۔ اس بپھری ہوئی تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں سادگی کفایت شعاری اور ریاست مدینہ کے داعی وزیر اعظم عمران خان کو اپنی وزرات عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے۔
اگر ہم ماضی کی طرف نظر دوڑائیں تو پہلی تحریک عدم اعتماد بینظیر بھٹو کے خلاف آئی جو ناکام ہوئی پھر شوکت ترین نشانہ بنے ،گر وہ بھی بچ گئے اور اب تحریک عدم اعتماد اپنے پورے لاؤ لشکر اور تیاری کے ساتھ عمران خان کے خلاف آئی جو پاکستانی تاریخ میں پہلی بار کامیاب ہوئی اور یوں عمران خان عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے والے ملک کے پہلے وزیراعظم بن گئے۔
”میرے پیارے پاکستانیو! آپ کو پرانا پاکستان مبارک ہو۔ ”
عمران خان کی جگہ لینے والا وزیراعظم یہ الفاظ بول سکتا ہے کیونکہ نیا پاکستان جس نے ریاست مدینہ بننا تھا ، زیادہ دیر نہ چل سکا اورآخر کار پرانے پاکستان میں ضم کرنا پڑا۔ بدقسمتی سے جس لہجے اور تکبر سے نئے پاکستان کے وزیراعظم ، وزراء اور مشیر بات کرتے تھے شاید وہی ان کو لے ڈوبا۔ عمران کے نہ بننے والے چپڑاسی شیخ رشید نے جس طرح امیرلمومنین عمران خان کو آسمان پر چڑھایا تھا اس سے ہر ذی شعور کو یقین تھا کہ ایک نہ ایک کھجور میں اٹکائے گا۔ جس وقت وزیراعظم کی آسمانی فلائٹ کی لینڈنگ ہونے لگی تو شیخ صاحب یکدم منظر سے غائب ہوگئے۔ اگر نئے پاکستان کے قیام پر ذرا سی روشنی ڈالی جائے تو سب کچھ عیاں ہوجائے گا۔ خان صاحب کی حب الوطنی پر اگر کوئی شک نہ بھی کیا جائے لیکن جس طرح انہوں نے ماہرین کی ٹیم تیار کی اور اس ٹیم نے کپتان سمیت جو گل کھلائے ان پر تھوڑی بات ضروری ہے۔ ”چڑیا چُگ گئیں کھیت ”کے مصداق اب فوری طور پر شاید کوئی تلافی ممکن نہیں کیونکہ جو بیجا گیا وہی آخر کار کاٹ لیا گیا ۔
وزیراعظم بننے سے پہلے آپ نے نئے پاکستان کا جو روشن اور اجلا چہرہ دکھایا اس پر بہت سے لوگ فدا ہوگئے مگر افسوس آج آپ کی کمانڈ اور کنٹرول پہ رونا آ رہا ہے۔ آپ نے دکھوں کی ماری قوم کو جو سنہرے خواب دکھائے تھے وہ آپ نے اپنے ہی ہاتھوں چکنا چور کیے۔ آپ نے کسی بھی خواب کو شرمندۂ تعبیر نہ ہونے دیا۔ جب اقتدار کی ہما آپ کے سر بیٹھی اس وقت تقریباً سارا پاکستان آپ کے ساتھ تھا۔ بہت سی سیاسی جماعتیں آپ کی قیادت میں روشن پاکستان کی متمنی تھیں کیونکہ دہشت گردی آپ کے آنے سے پہلے ہی دم توڑ چکی تھی۔ لوڈ شیڈنگ کا جن بھی قابومیں آچکاتھا۔ کراچی میں امن و امان قائم ہوچکاتھا۔ ان شواہد سے عالمی سطح پر آپ کو بڑی پزیرائی مل رہی تھی۔ با اثر ممالک آپ کی پشت پر تھے مگر یہ سب کچھ ہونے کے باوجود آپ قوم کو وہ سب نہ دے سکے جس کا وعدہ کیا تھا۔
وزیراعظم و گورنر ہاؤس عوام کے لیے وقف کرنے، پاکستانی ، تارکین وطن اور دیگر ممالک کے لوگوں کو ملازمتیں دینے، آئی ایم ایف کے آگے جھکنے اور قرضہ لینے کی بجائے خودکشی کرنے ، کرپشن مٹانے ، چوروں اور لٹیروں کو راستہ نہ دینے جیسے بہت سے بلندوبانگ دعوؤں میں سے کسی ایک کی بھی تکمیل نہ ہوسکی۔ آپ اپنے وعدے کے مطابق مختصر اور قابل کابینہ کے ساتھ اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر عوام کی مشکلات کم کر کے ان کا معیار زندگی بہتر بنا سکتے تھے لیکن افسوس آپ نے اپنی کابینہ کے جم غفیر اور سپورٹرز کے ذریعے اپنی تمام تر توانائیاں صرف اس بات پر لگا دیں کہ میں اپوزیشن کو رلاؤں گا، میں ان کو تکلیف پہنچاؤں گا، انہیں مجھ سے تکلیف پہنچے گی۔اور واقعی آپ پوری یکسوئی سے اپوزیشن کی کردار کشی کے مشن پر رہے۔ آپ اپنی جماعت کے لوگوں پر کرپشن کے لگے داغ دھونے میں بے بس نظر آئے۔ یہ تو نہیں معلوم کہ اپوزیشن روئی یا نہیں؟ اور اگر روئی تو کتنا؟ لیکن خان صاحب آپ کے زریں دور میں غریب عوام کی چیخیں نکل گئیں۔ آٹا، چینی، آئل اور میڈیسن مافیا آپ کی حکومت کی گود میں بیٹھ کرعوام کو کنگال کرتا رہا لیکن عمران خان نیازی اک شان بے نیازی سے مخالفوں کو دبوچنے میں مصروف رہا ۔ آپ عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے کی بجائے ساری ذمہ داری پچھلی حکومتوں پر ڈال کر مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہے۔ آپ عوام کو کہتے رہے کہ آپ نے گھبرانا نہیں اور خود گھبرا کر رات کے اندھیرے میں نکل گئے۔آپ ریاست مدینہ کی باتیں کرتے تھے ، سادگی کی باتیں کرتے تھے اور خود جاتے ہوئے ہیلی کاپٹرکے بغیر وزیراعظم ہاؤس سے نہ نکلے۔
جس طرح عمران خان نے سنہرے خواب دیکھا کر حکومت لی اسی طرح اب اپوزیشن نے عوامی باتیں کرکے اقتدار لیا ہے مگر دیکھنا ہے کہ سب سیاستدان ماضی سے سبق سیکھیں گے یا اسی چلن کو برقرار رکھیں گے؟
امت مسلمہ نے قائد اعظم کی قیادت میں پاکستان رمضان المبارک میں حاصل کیا ۔ رمضان کی با برکات ساعتوں میں نئے پاکستان سے واپس اپنے پاکستان میں آئے ہیں ۔ اب دیکھنا ہے نئے پاکستان سے نکلنے کے بعد حکمران قائد کے پاکستان کے ساتھ کیا کرتے ہیں ؟ کیا وہ ہر چیز پرانی والی سطح پر لائیں گے ؟ یا ہر کام نئے پاکستان والا ہوگا؟ کیا نئی حکومت پرانی عوام کو پاکستان کی پرانی قیمتیں لوٹا دے گی؟ کیا چینی ایک بار پھر 40روپے، پیٹرول 80روپے، گھی 250روپے، مرغی کا گوشت 150روپے ، بڑے کا گوشت 300روپے اور دیگر اشیا کی پرانی قیمتیںبحال ہونگی یا خان صاحب کے خلاف چار باتیں بنا کر وہی دام چلتے رہیں گے؟
یہ بات ذہن نشین رہے کہ نہ یہ نیا پاکستان ہے اور نہ ہی پرانا بلکہ پاکستاینوں اور قائد کا پاکستان ہے اور اس کی بقا میں ہم سب کی بقا ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭