سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن اور الیکشن کمیشن کی ذمے داریاں؟؟

پاکستان میں کوئی بھی شخص جب چاہے اپنی ذاتی سیاسی جماعت نہ صرف بنا سکتا ہے بلکہ الیکشن کمیشن سے رجسٹرڈ بھی باآسانی کراسکتا ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق اس کے لیے صرف 2 لاکھ روپے سکہ رائج الوقت اور تقریبا 2 ہزار افراد کے شناختی کارڈ کی نقول درکار ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتا ہے تو اس کی اولین کوشش ہوتی ہے کہ لوٹا بن کر کسی اور کے واش روم کی زینت بنا جائے پھر ناکامی پر علیحدہ گروپ بنا کر الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کی درخواست دے ڈالتا ہے اور الیکشن کمیشن بقیہ کسی چوں چرا اس کو رجسٹرڈ نمبر الاٹ کردیتا ہے اور کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ اس وقت بھی ایک قومی رہنما واحد نشست پر ایک سیاسی جماعت چلا رہا ہے۔ ماضی میں بابائے جمہوریت نواب زادہ نصر اللہ خان کی پارٹی کو تانگہ پارٹی کہا جاتا تھا ان کے تمام رفقائے کار ایک تانگے کی نشستیں ہی پر کرسکتے تھے مگر یہاں ہم جس حویلی والی سرکار کا ذکر کررہے ہیں وہ تو موٹر سائیکل پر ہی سماں جاتے ہیں بلکہ اپنے اس فن کی بدولت موٹر سائیکل ہی پر فرار ہو کر پولیس کو چکمہ دے چکے ہیں۔
الیکشن کمیشن میں اس وقت بے تحاشا ایسی جماعتیں رجسٹرڈ ہیں جو یا تو الیکشن میں حصہ ہی نہیں لیتیں اور اگر ہمت کرتی بھی ہیں تو ان کے ووٹوں کی تعداد کو انگلیوں پر گنا جاسکتا ہے۔ بعض جماعتیں صرف اپنے رہنما کے حلقے تک محدود ہوتی ہیں۔ اور بعض جماعتیں صرف بارگینگ کے لیے اپنے امیدوار کھڑے کرتی ہیں پھر مک مکا کرکے کسی بھی پارٹی یا امیدوار کے حق میں دستبرداری اختیار کرتی ہیں۔
الیکشن کمیشن کے حالیہ اعلامیہ کے مطابق اس وقت پاکستان میں 135 سیاسی جماعتیں رجسٹرڈ ہوچکی ہے۔ جب کہ رواں سال بھی 6 جماعتیں رجسٹرڈ ہوتی ہیں۔ ذرا ان کے نام تو ملاحظہ فرمائیں۔ پاکستان محافظ پارٹی، پاکستان عوامی اتحاد، ڈیموکریٹ فرنٹ، پیپلز الائنس، پاکستان عوامی تحریک، پاکستان عام آدمی اتحاد۔ ان جماعتوں کے نام ہی سے ان کے عزائم ظاہر ہیں۔ آگے چل کر الیکشن کمیشن نے خود ہی اس راز سے پردہ بھی اٹھادیا کہ ان 135 جماعتوں میں سے صرف 16 جماعتیں ہی پارلیمان کا حصہ ہیں تو پھر اس جمِ غفیر کی کیا ضرورت ہے۔ یہ سب سیاسی کاروبار چلا رہے ہیں۔ اگر الیکشن کمیشن اپنی ذمے داری محسوس کرے تو یہ سیاسی کاروبار کو روکا جاسکتا ہے۔ ہم اس سلسلے میں چند گزارشات پیش کررہے ہیں۔ رجسٹریشن فیس 2 لاکھ رکھیں یا 10 لاکھ جس کو یہ کھیل کھیلنا ہے وہ تو کھیلے گا۔ لہذا پہلے تو تمام سیاسی جماعتوں کو تین کیٹیگریز میں تقسیم کردیا جائے۔ A کیٹیگری میں صرف ان قومی جماعتوں کو شامل کیا جائے جو قومی اسمبلی، صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کی درخواست دے گا۔ ان کے لیے فیس کوئی مسئلہ نہیں مگر 10 ہزار افراد کی دستخط شدہ درخواست اور شناختی کارڈ کی نقول جس کی تصدیق نادرا سے کرانے کے بعد رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کیا جائے۔ B کیٹیگری میں ان جماعتوں کو رجسٹرڈ کیا جائے جو صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی الیکشن میں حصہ لینے کے خواہش مند ہوں۔ فیس ان کے لیے بھی کوئی مسئلہ نہیں مگر درخواست کے ساتھ 5 ہزار افراد کی دستخط شدہ درخواست اور شناختی کارڈ کی نقول کی نادرا سے تصدیق ضروری ہیں۔ C کیٹیگری میں صرف ان علاقائی جماعتوں کو رجسٹرڈ کیا جائے جو صرف بلدیاتی الیکشن میں شرکت کی خواہش مند ہوں۔ ان کے لیے فیس صرف 50 ہزار روپے رکھی جائے اور تصدیق کے لیے صرف 2 ہزار افراد کے دستخط اور شناختی کارڈز کی نقول درکار ہوں۔ الیکشن کمیشن تمام رجسٹرڈ جماعتوں کو متنبہ کرے کہ اگر الیکشن میں تصدیق شدہ افراد کے برابر ووٹ حاصل نہ کرسکے تو رجسٹریشن نہ صرف ختم کردی جائے گی اور آئندہ نام اس کے استعمال پر پابندی ہوگی۔
آخر میں آزاد امیدواروں کے حوالے سے عرض ہے کہ اس سلسلے کو ختم کردیا جائے کیوں کہ جب جیتنے کے بعد پارلیمان میں بیٹھنے کے لیے سیاسی جماعت سے وابستگی ضروری ہے۔ تو پھر امیدوار کا آزادانہ الیکشن کیا معنی؟ اکثر آزاد امیدوار پیسہ لے کر کسی دوسرے امیدوار کے حق میں دستبردار ہوجاتے ہیں اور اگر خوش قسمتی سے اگر کوئی آزاد امیدوار کامیاب ہوگیا تو اس کے وارے نیارے ہوگئے اور اس کی قدرو قیمت بڑھ جاتی ہے اور پھر اپنی بڑھی ہوئی قیمت وصول کرکے کسی جماعت کی گود میں جاگرتا ہے اور بعض اوقات تو ایسا بھی ہوا ہے عوام نے اپنے ووٹوں سے جس جماعت کے خلاف فتح دلائی وہ عوامی رائے کے برخلاف اسی جماعت سے جاملتا ہے۔ اب یہ الیکشن کمیشن کا حق ہے کہ وہ اپنی ذمے داریاں کیسے پوری کرتا ہے۔