مقبوضہ جموں وکشمیرمیں اخبارات کو سرکاری اشتہارات دینا ایک خفیہ، مشکوک عمل ہے: رپورٹ

سرینگر03اکتوبر() غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارت کی ہندوتوا حکومت اشتہارات کی تقسیم کو اخبارات کو اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے پر مجبور کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
سرینگر کے ایک انگریزی روزنامے” کشمیر ریڈر” نے ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ کشمیر کے تمام اخبارات کو مشکل وقت کا سامنا نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو لوگوں کو معلوم نہیں ہے اور حکومت کا ڈائریکٹوریٹ آف انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز (DIPR) اسے اسی طرح برقرار رکھنا چاہتا ہے اورمعلومات کے حق (آر ٹی آئی)کے قانون کے تحت دائر کردہ سوالات کے جواب دینے سے انکار کررہا ہے۔اگر اس کے پاس چھپانے کے لیے کچھ نہیں ہے تو ڈی آئی پی آر کو ان الزامات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ وہ ان دلالوں سے ملا ہوا ہے جو کچھ غیر معروف اخبارات سے رشوت لیتے ہیںاور انہیں سرکاری اشتہارات کا بڑا حصہ دلاتے ہیں ۔کشمیر ریڈر نے جن اخبارات کے مالکان سے بات کی انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ان اخبارات کو جن کی سرکولیشن نہ ہونے کے برابرہے ، دوسرے اخبارات کے مقابلے میںجو بڑے پیمانے پر پڑھے جاتے ہیں، بہت زیادہ اشتہارات دیے جا رہے ہیں ۔سرینگرسے شائع ہونے والے ایک انگریزی روزنامے کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے کشمیر ریڈر کو بتایا کہ روزانہ ہزاروں کاپیاں فروخت کرنے والے اخبارات کو سرکاری اشتہارات کا ایک معمولی ساحصہ دیا جاتا ہے جبکہ جن کے نام پہلی بار سننے کو ملتے ہیں، ان کومسلسل مراعات اور بہت زیادہ اشتہارات اور فوائد دیے جارہے ہیں۔ایک انگریزی روزنامے کے ایڈیٹر نے کشمیر ریڈر کو بتایاکہ درمیانہ دار افراداقتدارکی راہداریوں سے جڑے ہوتے ہیں۔ آپ کو کیا لگتا ہے کہ وہ اس طرح کے کاموں کو اتنی آسانی سے کریں گے؟ گٹھ جوڑ واضح ہے۔موجودہ منظر نامے سے پریشان اور متاثرہ کشمیر ریڈر نے گزشتہ سال جولائی میں اس گٹھ جوڑ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ایک آر ٹی آئی درخواست دائر کی۔ درخواست میںدیگر چیزوں کے علاوہ اخبارات میں اشتہارات کی تفصیلات اوراشتہار دینے کے معیارکے بارے میں معلومات مانگی گئیں۔آر ٹی آئی ڈی آئی پی آر کے پبلک ریلیشنز آفیسر کے دفتر میں داخل کی گئی تھی۔ آر ٹی آئی کے جواب میں دفتر نے کہا کہ مطلوبہ معلومات جوائنٹ ڈائرکٹر انفارمیشن کے دائرہ اختیار میں ہیں اور اس کیس کو ان کے دفتر کو بھیج دیاگیاہے۔لیکن جوائنٹ ڈائریکٹر کے دفتر سے سوالات کا جواب تسلی بخش نہیں تھا۔یہ واضح ہے کہ وہ کچھ چھپا رہے ہیں اور اشتہارات کی تقسیم میں رہنما اصولوں پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ ایک اخبار کے چیف ایڈیٹر نے کہا کہ شفافیت اور جوابدہی ہونی چاہیے ورنہ یہ ظاہر ہے کہ نااہل لوگ جن کے مفادات ہیں اور مشکوک اخبارات چلا رہے ہیں، ان دلالوں کے ذریعے فائدہ اٹھاتے رہیں گے۔رپورٹ کے مطابق ڈائریکٹر انفارمیشن اینڈ پبلک ریلیشنز اکشے لابرو سے رابطہ کرنے کی بار بار کوششیں ناکام رہیں۔ انہوں نے فون کا جواب نہیں دیا۔