آئی ایم ایف ایکٹ، منی بجٹ اور قومی خودمختاری

میں نے اس آرٹیکل سے قبل بھی معیشت کی بگڑتی ہوئی حالت پر کچھ مضامین لکھے ہیں جو ریکارڈ پر ہیں خاص طورپر میرے تازہ ترین دو آرٹیکلز جو حال ہی میں نوائے وقت میں شائع ہوئے جن میں ایک پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچائیں اور دوسرا آرٹیکل پاکستان کو دیوالیہ سے بچائیں مغربی اقدامات کو روکیں۔تھا ان آرٹیکلز کا انگریزی ورژن دی نیشن میں 11 نومبر 2021 اور 21 دسمبر 2021 کو شائع ہو چکا ہے۔ سٹیٹ بنک آرڈر 1948 میں ترامیم ایک ایکٹ کی شکل میں لائی جا رہی ہیں جسے آئی ایم ایف ڈیمانڈز ایکٹ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ اگر اسے پارلیمنٹ سے منظور کر لیا جاتا ہے تو پاکستان جزوی طورپر اپنے مالی معاملات کا فیصلہ کرنے کا اختیار کھو دے گا۔ یہ ایکٹ پاکستان کو ایک خودمختار ریاست کے طورپر کام کرنے کے اختیارات چھین کر معذور کر دے گا۔ اس ایکٹ کو نافذ کرنے سے آپ اسٹیٹ بنک کو دفاعی بجٹ کی پالیسیوں کیساتھ ساتھ نیوکلیئر کمانڈ اتھارٹی کی مالی سرگرمیوں میںملوث ہونے کا حق دیں گے۔ صرف ایک ارب ڈالر حاصل کرنے کیلئے ہم آئی ایم ایف کے ان مطالبات کو مان کر اپنی آزادی اور اپنی نسلوں کا مستقبل آئی ایم ایف کے حوالے کرنے جا رہے ہیں جو پاکستان اپنے وسائل سے حاصل کر سکتا تھا۔ کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ ایک درست فیصلہ ہے جس میں ہمیں ایسٹ انڈیا کمپنی کے اس نئے ورژن آئی ایم ایف کی صورت میں نچوڑا اور چوسا جا رہا ہے؟ یہ قانون گورنر سٹیٹ بنک پر ان کے اقدامات پر تنقید یا سوال کرنے پر پابندی لگائے جس کا مطلب آزادی اظہار کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ آئی ایم ایف کے مطالبے پر منی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا اور پہلے ہی پسے ہوئے عام آدمی پر مزید ٹیکسز عائد کر دیئے گئے ہیں۔ آئی ایم ایف کے نہ ختم ہونے والے مطالبات یہیں نہیں رکیں گے کیونکہ آئی ایم ایف کا ایجنڈا ہماری معیشت کو تباہ کرنا اور پاکستان کو بین الاقوامی ڈیمانڈ کی طرف لے جانا ہے۔ آئی ایم ایف کے اس منی بجٹ کی وجہ سے ہر پاکستانی کو نقصان اٹھانا پڑے گا۔ پارلیمنٹ اپوزیشن جماعتیں اور حکومت کو سامنے آنا چاہئے اور آئی ایم ایف سے چھٹکارے کیلئے کوئی مشترکہ حل دینا چاہئے۔ قوم قومی مسائل کو مہذب انداز میں حل کرنے کے بجائے پارلیمنٹ میں دنگل دیکھتی ہے۔ سٹیٹ بنک ایکٹ جو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے اور اب متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیجا گیا ہے کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں۔
مجوزہ ترمیم کے مطابق سٹیٹ بنک کی موجودہ انتظامیہ جس میں بورڈ آف ڈائریکٹرز گورنر ڈپٹی گورنرز کسی بھی بورڈ کمیٹی اور مانیٹری پالیسی کمیٹی کے ممبر یا بنک کے عملے سمیت موجودہ اسٹیٹ بنک کی انتظامیہ کو کسی بھی غیرقانونی کام یا کسی کام کی کارکردگی سے استثنی دیا گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ گورنر ڈپٹی گورنرز مانیٹری پالیسی کمیٹی کے بیرونی ممبران اور نان ایگزیکٹو بورڈ ممبران کی مدت ملازمت بھی 3 سال سے بڑھا کر 5 سال کر دی گئی ہے جس میں انہیں دو دفعہ کی مدت کی اجازت ہوگی جبکہ ایک سال کی توسیع بھی دی گئی ہے۔ تازہ ترین مجوزہ ترامیم کے مطابق اسٹیٹ بنک کے مقاصد قیمتوں کو برقرار رکھنے اور مالی استحکام کیلئے بیان کئے گئے ہیں۔ اگرچہ حکومت نے اس خودمختاری کو قیمتیں برقرار رکھنے کا ایک طریقہ قرار دیا ہے لیکن ابھی تک اس ایکٹ پر نظرثانی کے باوجود مہنگائی کے اہداف یا قیمتوں میں استحکام کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اسٹیٹ بنک مہنگائی کو کس صلاحیت سے کنٹرول کر سکتا ہے؟ مزید یہ کہ اب حکومت کرنسی چھاپ کر تنخواہیں ادا کر سکتی ہے۔ (حالانکہ یہ برا ہے) جبکہ کرنسی پرنٹ کرنے یا قرضوں پر پابندی لگانے سے ہمارے غیرملکی قرضوں میں ڈوبے ہوئے ملک پر شدید دبائو آئے گا اور ہم مزید قرضوں کی بھیک مانگنے پر مجبور ہو جائیں گے؟ حکومت کسی بھی صورت میں اسٹیٹ بنک سے قرضہ نہیں لے سکے گی جس سے حکومت کی مالی ضروریات اور قومی خزانے پر بری طرح اثر پڑے گا اور اس سے حکومت کیلئے مشکلات پیدا ہونگی جو ہمیں دیوالیہ ہونے کی طرف دھکیل دے گی۔ ایس بی پی کے ملازمین کی طرف سے غلط کاموں یا مجرمانہ بدانتظامی یا کسی مجرمانہ غفلت پر کوئی روک ٹوک یا بندش نہیں ہوگی۔ پوری تاجر برادری ان ترامیم پر شدید اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کر رہی ہے کیونکہ اسٹیٹ بنک اب دیہی قرضوں صنعتی قرضوں برآمدی قرضوں قرضوں کی گارنٹی اور ہائوسنگ کریڈٹ کی مالی اعانت نہیں کرے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شعبے بڑی مشکل میں پڑ جائیں گے اور مافیا عام آدمی اور چھوٹے تاجر برادری کی قیمت پر پھلے پھولے گا۔ مجوزہ ترامیم سے ہمارے ملک کی خودمختاری کو شدید خطرہ لاحق ہو رہا ہے کیونکہ خود مختار سٹیٹ بنک سٹیٹ ڈومین سے خارج ہو جائے گا اور اسٹیٹ سٹیٹ بنک کے ماتحت ہو جائے گی۔ آزاد اسٹیٹ بنک ہمارے تمام ادارہ جاتی اور ریاستی رازوں کو مانیٹر کرے گا اور حکم دے گا جبکہ قومی مفاد میں کارروائیاں براہ راست سکیورٹی رسک اور آئی ایم ایف کے تابع ہونگی۔ اسٹیٹ بنک ایف اے ٹی ایف کے ذریعے بین الاقوامی برادری کو معلومات فراہم کرنے کیلئے قانونی دائرہ کار میں رہے گا جہاں ایف اے ٹی ایف پہلے ہی متعصب اور پاکستان مخالف ہے۔ اس بل میں سٹیٹ بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں کسی بھی حکومتی نمائندگی کو شامل نہیں کیا گیا ہے کیونکہ کسی رکن پارلیمنٹ یا کسی بھی ریاستی ادارے کو اسٹیٹ بنک کا حصہ بننے یا پارلیمنٹ یا کسی عدالت میں اس کی بے ضابطگیوں پر سوال اٹھانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ آئی ایم ایف کیلئے کام کرنے والے چند ذہنوں کے ہاتھوں ہمارے معاشی نظام کی تباہی کیسی ہوگی؟ اس کا بنیادی ایجنڈا حکومت کو مجبور کرنا ہے کہ وہ دیگر تمام اخراجات پر ملک کے غیرملکی قرضوں کی ذمہ داریوں کو پورا کرے اور پھر آئی ایم ایف کا اختیار بڑھانے کیلئے آئی ایم ایف سے نئے قرضے لینا جاری رکھے۔ اس بل کے تحت پارلیمنٹ کو بے اختیار کیا جا رہا ہے کہ پارلیمنٹ کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ پارلیمنٹ اسٹیٹ بنک کے روزمرہ کے کام کاج کی نگرانی کیلئے کوئی ریگولیٹری اتھارٹی نہیں ہے۔ نئے بل کے مطابق مانیٹری پالیسی اسٹیٹ بنک کے دائرہ کار میں آتی ہے جبکہ مالیاتی پالیسیاں وفاقی حکومت کے ماتحت ہونگی جس سے ملک کے میکرو اکنامک مینجمنٹ کو شدید نقصان پہنچے گا کیونکہ دونوں ڈومینز کے درمیان کوئی ہم آہنگی نہیں ہوگی جیسا کہ یہ ترامیم متضاد ہیں اور ملک کو دیوالیہ پن کی طرف دھکیلنے کے مذموم مقاصد کے ساتھ لائی جا رہی ہیں۔ یہ غیر دانشمندانہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اب اسٹیٹ بنک کو ریاست کے اعلی ترین باوقار ادارے کا درجہ دیا جا رہا ہے جو کسی بھی قانون حتی کہ آئین سے بالاتر ہوگا۔ مزیدبراں پارلیمنٹ جو وزیراعظم کو بھی ہٹا سکتی ہے۔ اسٹیٹ بنک کے خلاف آواز نہیں اٹھا سکتی اور نہ ہی اسٹیٹ بنک کے گورنر یا ڈپٹی گورنر کو کسی بھی صورت میں ہٹا سکتی ہے۔ اسٹیٹ بنک کے گورنر کو وفاقی حکومت صرف اسی صورت میں ہٹا سکتی ہے جب وہ بدعنوانی کا مرتکب پایا جائے۔ یہ صرف ایک رسمی حیثیت ہوگی کہ گورنر پارلیمنٹ کے سامنے کامیابیوں کے حوالے سے کسی قسم کے احتساب کے بغیر سالانہ رپورٹ یا ششماہی رپورٹ پیش کریں گے۔ ایسی رپورٹ کا کیا فائدہ جس کو قانونی کارروائی کیلئے الگ نہ کیا جا سکے۔ یہ انتہائی حیران کن ہے کیونکہ یہ رپورٹ اسٹیٹ بنک گورنر یا اسٹیٹ بن کے کسی دوسرے ملازم کو کسی غلط کام یا نقصان کا ذمہ دار نہیں ٹھہرا سکتی۔ مسودہ ایکٹ پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ہم نے تیار نہیں کیا ہے بلکہ آئی ایم ایف کے ایجنٹوں کی طرف سے تیار کیا گیا ہے۔ مسودہ بل کو پارلیمنٹ میں بحث کیلئے پیش کرنے اور اسے منظور کرنے سے پہلے آئی ایم ایف کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا۔ ہمارا ملک ایسے حساس ادارے کی خودمختاری اور استثنی کی اس سطح کا متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ ہماری معیشت کے ساتھ ساتھ ہمارے ملک کی خودمختاری کیلئے بھی نقصان دہ ہوگا۔ ہم نے دیکھا کہ بجٹ کس طرح پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا اور کس طرح عوام نے اسے مسترد کر دیا کیونکہ اس سے ایک عام آدمی کو تکلیف ہو رہی ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭