جماعت اسلامی کا مسئلہ کشمیر پر موقف ۔ امیر جماعت سے مکالمہ۔

سچ تو یہ ہے ۔

بشیر سدوزئی

بلا شبہ ریڈ کلف ایورڈ کشمیر پر بھارتی تسلط کی راہ ہموار کرنے کی سازش تھی جس نے ہندوستان کی تقسیم کے طہ شدہ اصول سے ہٹ کر گرداسپور کو بھارت کے حوالے کیا،اس میں کانگریسیوں کی کیا سازش تھی یا حکمت عملی بدقسمتی سے مسلم لیگی قیادت اس سازش کا بروقت ادراک نہ کر سکی جس کا خمیازہ پاکستان، پاکستانی اور کشمیری آج تک بھگت رہے ہیں معاملہ قائد اعظم تک ہوتا تو حل ہوتا، کابینہ نے قائد اعظم کی کشمیر پالیسی کو مسترد کر دیا اور قائد نے جمہوری اقدار کی پاسداری کی کہ اکثریتی فیصلے پر اپنی مرضی مصلت نہیں کی ۔ سابق وزیر اعظم چوہدری محمد علی کی کتاب ” ایمرجنسی آف پاکستان ” اور سردار شوکت حیات خان کی ” گم گزشتہ قوم” جس نے بھی پڑی ہو اس کے لیے کشمیر کے حوالے سے مسلم لیگ اور لیاقت علی خان کی پالیسی سمجھنا مشکل نہیں اور یہی پالیسی کابینہ کی تھی ۔ دونوں حضرات اس بات کے گواہ ہیں کہ نائب وزیر اعظم و وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل جونا گڑھ اور حیدر آباد بھول جانے کی شرط پر کشمیر سے نکل جانے کی بار بار پیش کش کرتا رہا ۔ جب کے لیاقت علی خان صاحب کشمیر کے پہاڑوں اور ٹیلوں کے مقابلے میں حیدر آباد کو ترجیح دیتے رہے۔ چوہدری محمد علی دلی کی ایک اجلاس اور سردار شوکت حیات ، پٹیل کے پیغام کے ساتھ لارڈ ماؤنٹ بٹن کی لاہور آمد کا تذکرہ کرتے ہیں۔ جہاں پٹیل اس مسئلے کے حل کی کھلی پیش کش کرتا ہے لیکن خان صاحب کی سوئی حیدر آباد میں ہی پھنسی رہی پھر کانگریس نے حکمت عملی تبدیل کر لی کہ نہ یہ دو نہ وہ ۔ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ گرداسپور کو بھارت میں اسی لئے شامل کیا گیا کہ کشمیر پر قبضہ کرنے کے بعد کانگریس پاکستان کے ساتھ حیدر آباد اور جونا گڑھ پر سودے بازی کرنے کی پوزیشن میں رہے۔ لیکن مسلم لیگی قیادت کے فیصلے سیاسی سوج بھوج سے عاری تھے ۔ کم از کم امیر جماعت اسلامی ابو لاعلی مودودی کی تجویز ہی مان لی ہوتی تو کشمیریوں کا نہ اتنا قتل عام ہوتا اور نہ ان کو آج یہ دن دیکھنے پڑتے کہ 7 لاکھ انسانوں کی قربانی 107813 سے زائد بچوں کو یتیم، 2294 خواتین کو بیوہ، 11234 عورتوں کی عصمت دری ،7163 افراد کو حراست میں شھید، 161407 افراد کو گرفتار اور اذیت خانوں میں تشددد کا نشانہ بنانا، بھارتی فورسز کے جانب سے 110386 مکانات کو جلانے یا تباہ کرنے ،لگ بھگ 875 ارب ڈالر کا معاشی اور تجارتی نقصان برداشت کرنے کے بعد بھی تقسیم جیسے فارمولے کی تلوار سروں پر نہ لٹک ریی ہوتی اور سید علی گیلانی جیسے درویش اور بزرگ قائد کو ہندوتوا کے ایجنڈے کو پروان چڑھانے جیسے الفاظ سے نہ نوازا جاتا ۔ روز نامہ نوائے وقت میں شائع ہونے والی صاحبزادی سمیہ طفیل کی رپورٹ کے مطابق مولانا طفیل محمد کہتے ہیں کہ 17 اگست کو باؤنڈری کمیشن کی جانب سے گورداس پور کو بھارت میں شامل کرنے کا اعلان سنتے ہی مولانا مودودی نےفرمایا”گورداسپور کی بھارت میں شمولیت کشمیر پر بھارت کے تسلط کی کھلی سازش ہے۔ پاکستان کو فوراً فوج بھیج کر ریاست کا تعلق بھارت سے منقطع کر دینا چاہئے، ورنہ بھارت ریاست میں گھس گیا تو اسے بے دخل کرنا آسان نہ ہو گا‘‘۔ قیام پاکستان کے چند دن بعد مولانا نے فرمایا ’’ اگر میرے پاس ایک سو بندوق بردار بھی ہوتے تو میں لاہور جانے سے پہلے راوی پار کر کے ریاست کا تعلق بھارت سے منقطع کرنے کا انتظام کرتا۔ خدا معلوم پاکستان کے ذمہ دار کیا سوچ رہے ہیں” 30/اگست 1947ء کو لاہور پہنچنے کے دوسرے دن مولانا نے وزیراعلیٰ پنجاب نواب افتخار خان ممدوٹ سے ملاقات کی اور کہا ’’ میرے نزدیک اس وقت پاکستان کو درپیش مسائل میں سب سے اہم ترین مسئلہ اور عظیم خطرہ کشمیر کے بھارت میں زبردستی شامل کئے جانے کا ہے اور ریڈ کلف ایوارڈ نے دراصل بھارت کےلیے کشمیر کا راستہ کھول دیا ہے۔ میری دانست میں مسلمان اکثریت کا ضلع گورداسپور بھارت کو بلا وجہ نہیں بلکہ یہ بھارت کو کشمیر ہڑپ کرنے میں آسانی پیدا کرنے کےلیے دیا گیا ہے۔میری رائے ہے کہ پاکستان بلا توقف کشمیر پر قبضہ کر لے اور اگر ایسا کرنا بوجوہ ممکن نہ ہو تو کم از کم اس زمینی راستے کو کاٹ دیا جائے جس سے بھارت کا کشمیر میں فوجیں داخل کرنا ممکن نہ رہے ۔” نواب ممدوٹ نے مولانا کے مشورے کا بڑی بے اعتنائی سے جواب دیتے ہوئے یہ کہہ کر بات ختم کر دی ’’مولوی صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ ہم اپنے معاملات کو بہتر سمجھتے ہیں” ۔ ملاقات کے اگلے روز ہی مولانا مودودی نے چوہدری محمد علی سے رابطہ کر کے کہا ’’آپ وزیراعظم لیاقت علی خاں تک میری یہ بات پہنچا دیجئے کہ وہ فی الفور کشمیر کی فکر کریں‘‘۔ وزیر اعظم نے کشمیر کی فکر تو نہ کی لیکن مودودی اور ان کی جماعت اسلامی تب سے اب تک کشمیر کے بارے میں فکر مند ہی نہیں میدان عمل میں بھی ہے۔ ابھی تک بانی مرشد کے موقف پر قائم ہے کہ کشمیر جہاد ہی سے آزاد ہو گا تاہم اس مسئلے کو پاکستانی عوام اور بین الاقوامی سطح پر اجاگر کرنے میں بھی جماعت کی کوشش کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ۔5 فروری یوم یکجہتی کشمیر امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد ہی کی یاد تازہ کرتا ہے، جو اب نیو یارک اسمبلی میں بھی قرارداد کی صورت میں قانون بن چکا۔۔ اسی سوچ کے تحت سید علی گیلانی نے جہاد شروع کیا جو 30 سال سے جاری ہے۔ ان 30 برسوں میں کشمیر کے بوڑھے قائد کے نہ پاوں ڈگمگائے نہ گردش دوراں سے ان کے ارادے متزلزل ہوئے۔ آج دنیا میں اگر مسئلہ کشمیر زندہ ہے تو نوجوانوں کی 30 سال کی جدوجہد اور جانی و مالی قربانیوں کا نتیجہ ہے لیکن ابھی بھی منزل کی تصویر کشی نہیں ہو رہی۔ شاید جماعت اسلامی کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ اس طرح یہ بیل منڈھیر چڑھنے کی نہیں۔ لہذا پاکستان و آزاد کشمیر کی جماعت اسلامی اس حد تک تو ماننے لگی ہے کہ فی زمانہ صرف جہاد ہی سے قوموں کی آزادی ممکن نہیں۔۔ اس کی پشت پر مضبوط سفارت کاری اور سیاسی قیادت و تحریک کا ہونا بھی بہت ضروری ہے ۔ممکن ہے یہی احساس جماعت اسلامی کو غیر علانیہ اور غیر محسوس انداز میں اپنے موقف میں لچک اور تحریک کو مضبوط کرنے کے لیے کشمیریوں کو سفارت کاری کے اختیارات دینے کی بات کرنے پر مجبور کر رہا ہو ۔ گو کہ ابھی بھی جماعت اسلامی نے کے ایچ خورشید کی طرح بانگ دہل یہ مطالبہ نہیں کیا کہ آزاد کشمیر کی حکومت کو ڈوگرہ کی جانشین حکومت کے طور پر تسیلم کیا جائے۔لیکن سراج الحق صاحب کے اس مطالبہ کو کہ ” گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور حریت کانفرنس کے نمائندوں پر مشتمل کشمریوں کو پلیٹ فارم مہیا کر کے سفارت کاری ان کے حوالے کیا جائے کے ایچ خورشید ہی کی سوچ کو تقویت دیتی ہے جو کانگریس کو الٹا پکڑنے کی کہاوت پر صادق آتا ہے ۔جب کہ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر ڈاکٹر خالد محمود صاحب کی حلف برداری کی تقریب میں خطاب جس کسی نے بھی سنا، اس نے بے ساختہ کہا یہ تو کوئی قوم پرست کشمیری رہنما لگتا ہے ۔جماعت اسلامی گلیوں اور میدانوں میں تو کشمیریوں کو حق سفارت کاری ،کشمیر کی یکجہتی، گلگت بلتستان صوبہ بنانے کے نقصانات پر کھل کر اظہار کرتی ہے لیکن اپنے اس موقف کو قانون سازی کے لیے ایوان میں پیش کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ اس عمل کو لوگ جماعت اسلامی کی روایتی سیاست سے تشبیہ دیتے ہیں کہ یہ لوگ کہتے کچھ ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں ۔ یہی سوال پوچھنے کے لیے میں نے کراچی کے جماعتی دوستوں سے سراج الحق صاحب سے ملاقات کرانے کی درخوست کی تھی جو ابھی تک التواء میں ہے کہ” مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جماعت اسلامی کی پالیسی کیا ہے” ۔ تاہم راولاکوٹ میں جماعت اسلامی کے متحرک رکن عزیزم سردار محمد انور خان کے تواسط سے امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر و گلگت بلتستان ڈاکٹر خالد محمود سے اسلام آباد میں ان کے جماعتی دفتر میں ملاقات ہوئی جو گھنٹوں جاری رہی ۔اسی دوران نماز عصر کا وقفہ اور چائے کا دور بھی چلتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب خوش لباس، خوش اخلاق اور خوش گفتار بھی ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال ، جاری تحریک آزادی اور اس کا منتقی حل، بھارت کی جانب سے پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کے خلاف جاری ہائبرڈجنگ اور ففتھ جنریشن وار فئیر میں کشمیری نوجوانوں کو گمراہ کرنے کی کوشش، اس کے جواب میں پاکستانی حکومتوں اور لیڈر شپ کا کردار اور جوابی کارروائی کشمیری قیادت کی ذمہ داری اور نوجوانوں کی قربانیاں ، مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، ٹارچر سیلوں میں سیاسی قیادت اور کارکنوں پر ہونے والے تشددد سمیت مختلف امور پر کھل کر بات ہوئی۔ اس دوران بعض موقعوں پر ماحول جذباتی بھی ہوا اور خوشگوار انداز میں سوال جواب کا سلسلہ بھی چلتا رہا۔ انتہائی ترش اور سخت سوالات بھی تحمل سے سنے گئے ۔ ہر ایک سوال کا جواب بڑی برد باری اور سنجیدگی سے دیا گیا۔ کبھی مسکرا کر یا ہنس کر ٹال دینے سے مراد یہ لی گئی کہ اس کا کوئی جواب نہیں ۔ رسمی ملاقات میں ہونے والی گفتگو بہت جلد دوستانہ ماحول میں تبدیل ہو گئی شاید ڈاکٹر صاحب اور میرے دل کی آواز ایک ہی تھی ۔ بے شک سچے اور حقیقی کشمیریوں کے درمیان، آسیہ اندرابی، ڈاکٹر قاسم فکتو، علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق، یاسین ملک شبیر شاہ، مسرت عالم اور 16 ہزار سیاسی قیادت اور کارکنوں پر ٹارچر سیلوں میں ہونے والے تشددد پر مذمت میں کیا اختلاف ہو سکتا ہے۔تاہم کچھ سوالات کے جوابات اور گفتگو کو ضبط تحریر میں لاتے وقت منصف کے تقاضے کے پیش نظر تحریک آزادی کے مفادات اور وادی کشمیر کے حریت پسندوں کے جذبات کے احترام میں الفاظ کے چناو میں بہت زیادہ احتیاط برتنا مناسب جانا گیا۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ جس معاشرے میں سچ کو عام کرنا غداری اور جرم کے زمرے میں آتا ہو اور سچ وہی بات ہوتی ہو جو صاحب اختیار پسند کرتے ہوں۔ وہاں الفاظوں کا مناسب چناو ہی بچت کا راستہ ہے تاکہ امن و سکون تو بحال رہے ۔ مریم بی بی ڈاون لیگ میں الفاظ کا چناو درست کر لیتی تو تین مرتبہ کے وزیر اعظم کو قطری خط کی ضرورت پڑتی نہ ملک سے بھاگنا پڑتا۔ مریم بی بی بے آبرو ہو کر وزیر اعظم ہاوس سے نکلتی نہ انکل بھائیا جیل میں ہوتے اور نہ ہی پاکستان کے عوام حلق تک مہنگائی میں ڈوبے ہوتے۔ بس الفاظ کے چناو کے انہی فوائد کو مند نظر رکھ کر میں نے بھی ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ہونے والی گفتگو کو ریکارڈ پر لانے کی کوشش کی ہے ۔ اس بات پر اتفاق ہوا کہ کشمیری وہ بدقسمت قوم ہے جس کو آج تک کوئی لیڈر نہیں ملا یا کسی لیڈر پر اتفاق نہیں کیا۔ اسی وجہ سے اس قوم کو آج یہ دن دیکھنے پڑھ رہے ہیں ۔ قوم پرستوں کے اس سوال کے جواب میں آپ کے پاس کیا دلیل ہے کہ جماعت اسلامی کے جہاد نے کشمیریوں کو نظریاتی محاذوں پر تقسیم کر لیا ۔ جموں کا ہندو، سکھ اور لداخ کا بدھسٹ خوف زدہ ہیں کہ کشمیر پر مسلمانوں کے قبضہ سے ہمارے گلے اور ہاتھ بلا وجہ کاٹے جائیں گے اس خوف میں کشمیر تقسیم ہو گیا ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ یہ تاثر غلط ہے۔ یہ دراصل اسلام کے خلاف عالمی پروپیگنڈہ اور بھارت اسی عالمی سازش ہو ہوا دے رہا ہے۔ دوسرا اس پروپیگنڈے سے بھارت تحریک آزادی کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کرنے اور عوام میں غیر مقبول کرنے کے لیے جعل سازی اور مکر و فریب کے منصوبے بناتا رہتا ہے۔ گو کہ را ہمارے کچھ نوجوانوں کو ورغلانے کی کوشش کر رہا ہے لیکن وہ اور اس کا پروپیگنڈہ اس میں کامیابی حاصل نہیں کر سکے گا ۔ اسلام پرامن اور محبت کا مذہب ہے ۔یہ سزائیں کرمنل کے لیے ہیں ۔ چین میں تو کرمنل کے لیے اس سے بھی سخت سزائیں ہیں ۔ اسلام میں غیر مسلم اقلیت کو بہت زیادہ تحفظ اور حقوق حاصل ہیں اور جموں و کشمیر کے عوام صدیوں سے باہمی محبت سے رہ رہے ہیں ۔ بھارت منظم سازش کے تحت آزادی کی تحریک کو بدنام کر رہا ہے اور را ہمارے نوجوانوں پر بھی کام کر رہا ہے ان کو ورغلا رہا ہے اس پر اربوں ڈالر خرچ کئے جا رہے ہیں ۔ سید علی گیلانی نے سمیت تمام حریت پسند قیادت نے کشمیر کے پنڈتوں کو کشمیر کے اصل فرزند کہا اور واپس آنے پر مکمل تحفظ فراہم کرنے کی یقین دہانی کرائی لیکن بھارتی منظم طریقے سے کشمیر میں نفرتوں کو فروغ دے رہا ہے۔ پنڈتوں کو بھی منظم سازش کے تحت کشمیر سے نکالا گیا تاکہ تحریک آزادی کو بین الاقوامی سطح پر بدنام کیا جائے ۔ پروپیگنڈہ، اور جعلی مقابلے اسی لئے کرائے جاتے ہیں ہمارے مجائدین غیر مسلموں کی جان و مال کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہے، بھارتی پارلیمنٹ پر جعلی حملہ کرا کر مقبوضہ کشمیر کے لے کالے قوانین منظور کرائے گئے لہذا ایسے پروپیگنڈے میں کوئی صداقت نہیں ۔ ڈاکٹر صاحب نے اس بات کو تو تسلیم کیا کہ کوئی بھی مذاہمتی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی جس کی پشت پر سیاسی تحریک اور سنجیدہ سفارت کاری نہ ہو۔ تحریک آزادی کشمیر کی سفارت کاری کے لیے کے ایچ خورشید کی تجویز کو حتمی اور واحد حل بھی قرار دیا۔ لیکن میرے اس سوال کا جواب گول کر گئے کہ محترم عبدالرشید ترابی آزاد کشمیر اسمبلی میں ڈوگرہ کی جانشین حکومت تسلیم کرانے کی قرار داد لائیں گے یا نہیں۔ اور نہ اس بات کو تسیلم کیا 1947ء میں شیخ عبداللہ کی طرح 1999ء میں علی گیلانی سمیت کشمیری قیادت سے غلطی ہوئی کہ سیاسی تحریک مضبوط اور سفارت کاری اپنے ہاتھ میں لیے بغیر مذاہمتی تحریک شروع کی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہم کشمیری قائد اعظم اور مولانا مودودی کے پاکستان میں شمہولت اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر گزشتہ 73سال سے قربانیاں دے رہے ہیں، اور یہ ہمارا اپنا فیصلہ ہے ۔ 19 جولائی کی قرارداد ہم نے خود منظور کی تھی اس کے لیے کوئی دباؤ نہیں تھا ۔1947ء میں بھی ہمارے مجائدین نے جہاد خود شروع کیا تھا کسی کے اکسانے یا بیرونی مدد کی کسی توقع کے بغیر۔۔۔۔ اس کے نتیجے میں آزاد کشمیر حاصل ہوا اس کے یہ فوائد ہیں کہ ہم تحریک آزادی کشمیر کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ اس وقت شیخ عبداللہ سے غلطی ہوئی کہ وہ کانگریس کے بہکاوے میں آ گئے ورنہ قوم آج اس منجدھار میں نہ پھنسی ہوتی۔ لیکن 1990ء میں مذاہمتی تحریک کا اجراء کشمیریوں کا اپنا فیصلہ تھا جو 1947ء کے جہاد کا تسلسل تھا اور آج بھی جاری مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی تحریک کشمیریوں کی خالص اپنی اور اندرونی تحریک ہے لہذا جس قیادت کا کوئی بھی اقدام قوم کی اکثریت کے دل کی آواز ہو اس کے فیصلے غلط نہیں ہوتے۔ اس لیے 1990 میں علی گیلانی یا حریت قیادت کا رائفل اٹھانے کا فیصلہ قوم کی آواز تھا ۔گزرتے وقت نے ثابت کیا کہ پوری قوم اس میں شامل ہو گئی۔۔ یہ درست ہے کہ تحریک کی سفارت کاری درست انداز میں نہیں ہو رہی ۔ دوسری بات یہ کہ اس وقت کی حکومت پاکستان کی کشمیری مجاہدین اور تحریک آزادی کو مکمل اخلاقی حمایت حاصل تھی جو حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے۔۔ تاہم مشرف صاحب کا اقوام متحدہ کے ٹیبل سے باہر کا فارمولا جس کو کشمیریوں نے تسلیم نہیں کیا ترجیحات میں تبدیلی لایا ۔مشرف صاحب چوں کہ آرمی چیف اور چیف ایگزیکٹو بھی تھے۔ اس لیے ریاست کا ہر ادارہ ان کے ماتحت تھا۔ ترجیحات میں یہی تبدیلی ریاستی پالیسی میں تبدیلی محسوس ہوئی چوں کہ ہماری تحریک بیساکھیوں پر نہیں کھڑی تھی اس لیے وہ اس صورت حال میں بھی کھڑی رہی اور منتقی انجام تک جاری رہے گی ۔۔میری رائے میں علی گیلانی کا مشرف فارمولا تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ بھی درست تھا ۔ کیوں کہ تحریک آزادی کشمیر کی بنیاد تو اقوام متحدہ ہی ہے اس دفتر کے باہر ہونے والا کوئی بھی فیصلہ نہ ہمیں قبول کرنا چاہئے۔ بھارت اقوام متحدہ کے ٹیبل پر ہونے والے فیصلہ کو تسلیم نہیں کرتا جس کی شکایت بھی خود اسی نے کی تھی تو کیا ضمانت ہے کہ اقوام متحدہ سے باہر ہونے والے فیصلہ کا احترام کرے گا ۔ ہم اقوام متحدہ سے باہر تاشقند شملہ اور لاہور معائدہ کر کے نقصان اٹھا چکے ۔۔۔ اس سے مسئلہ کشمیر تنازعہ کشمیر میں بدل گیا جس کا ہمیں نقصان ہوا ۔۔یہ دو ملکوں کے درمیان سرحدی تنازعہ نہیں بلکہ ایک قوم اور ریاست کی آزادی کا مسئلہ ہے ۔ دنیا دو ملکوں کے درمیان تنازعہ کے حل کو اور تنازر میں دیکھتی ہے اور کسی قوم کی آزادی کے مسئلہ کو کسی اور تنازر میں دیکھا جاتا ہے ۔ ہمیں واپس اقوام متحدہ کے ٹیبل پر جانا چاہئے، اقوام متحدہ کے دفتر سے باہر کوئی بھی بات نہیں ہونا چاہئے ۔دنیا اقوام متحدہ کے ٹیبل پر ہمارے مقدمے کی ضامن ہے، ہم ضامن کو کیوں آزاد کریں۔۔۔ مذید تجربات ہمارے لیے سودمد نہیں ہو سکتے ۔ مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی نے ہمارے کسی ایک بے گناہ کے لہو کو قبول کر لیا جو اسی کی رضا کے لیے بہہ رہا ہے تو ہمیں کامیابی ملے گی ۔اس کے لیے ہمیں پاکستان کے عوام کی حمایت حاصل ہے جن کا ہم شکریہ ادا کرتے ہیں ہمارے لیے یہی کافی ہے کہ پاکستان کے عوام ہمارے ساتھ کھڑے ہیں ۔ امیر جماعت اسلامی آزاد کشمیر نے کہا کہ آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن میں وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ نہ آزاد کشمیر بلکہ سوچنے والے گلگت بلتستان کو بھی صوبہ نہیں بنا سکیں گے یہ بہت مشکل فیصلہ ہو گا ۔اس سے تحریک آزادی کشمیر ہی کو نہیں خود پاکستان کا نقصان ہو گا۔۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی بھی سطح کے دباؤ پر پاکستان کی سالمیت کے خلاف کوئی بھی حکومت فیصلہ کر سکتی ہے بلکہ ایسی جرائت بھی نہیں کر سکے گی۔ لگتا ہے کہ آنے والی آزاد کشمیر اسمبلی کے لیے ایسے لوگوں کی تلاش ہے جو کسی ایجنڈے پر آنکھ بند کرکے مہر لگا دیں ۔ اگر ایسا ہوا تو جماعت اسلامی کے کارکن سخت مذاہمت کریں گے خواہ وہ آزاد کشمیر میں ہوں یا گلگت بلتستان میں ۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے اس خیال کو سختی سے مسترد کر دیا کہ تقسیم کشمیر اگر ضروری ہے تو جموں اور لداخ بھارت آزاد کشمیر گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہوں اور وادی کشمیر خود مختار ہو جائے تاکہ وہاں کے نوجوانوں کو قربانیوں کا کچھ تو صلا ملے۔۔۔ انہوں نے کہا کہ ہر گز نہیں، ہر گز نہیں یہی تو ہے مشرف فارمولا جس کو علی گیلانی نے مسترد کر دیا تھا کشمیر کی تقسیم کا کوئی بھی فارمولا ہمیں قابل قبول نہیں ہے۔ کشمیر کی وحدت ہی ہمارے لیے اہم ہے۔ ۔ انہوں نے کہا کہ قوم نے جماعت اسلامی کو کبھی موقع نہیں دیا لیکن حقیقت میں جماعت اسلامی ہی برصغیر میں دو قومی نظریہ کی پشت بان ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے نوجوانوں نے خون دے کر تحریک آزادی کو زندہ رکھا ہوا ہے تو جماعت اسلامی ان قربانیوں کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے اور ان کے مقاصد سے دنیا کو روشناس کرانے کی ذمہ داری احسن طریقے سے انجام دے رہی ہے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ہمیں شکایت ضرور ہے کہ پاکستان کی وزارت خارجہ ہمارے مقدمے کو بین الاقوامی عدالت میں درست انداز میں پیش نہیں کر سکی۔ وزیر اعظم عمران خان نے اقوام متحدہ میں مقدمہ کشمیر کو درست انداز میں اٹھایا ضرور تھا لیکن بعد ازیں وزیر خارجہ خاموش تماشائی بنے نظر آتے ہیں ۔صرف ایک مرتبہ کی تقریر سے مسئلہ کشمیر کے ساتھ انصاف نہیں ہو سکتا یہ تو تسلسل کے ساتھ جدوجہد کا تقاضہ کرتا ہے اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ وزارت خارجہ میں ڈپٹی وزیر خارجہ برائے امور کشمیر اور کشمیریوں کو سفارت کاری میں شامل ہونا چاہئے لیکن آزاد کشمیر کی حکومت کو تسلیم کرنا اور بات ہے، آزاد کشمیر گلگت بلتستان اور حریت کانفرنس کے نمائندوں پر مشتمل یونٹ اور اس کو سفارت کاری کے اختیارات دینا اور بات ہے ۔ ساڑھے تین بجے شروع ہونے والی ملاقات مغرب سے تھوڑی دیر پہلے ختم ہوئی اس امید کے ساتھ کہ رابطہ اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے ۔