کشمیری عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائینگی مقامی الیکشن آزادی کا نعم البدل نہیں ہوسکتے :ظفراکبر بٹ اور الطاف احمد بٹ

سرینگر 24 فروری 2021: () سینئر حریت پسند رہنماء و سرپرست اعلی جموں کشمیر سالویشن موومنٹ ظفر اکبر بٹ نے کہا ہے کہ کشمیری عوام کی قربانیاں کبھی رائیگاں نہیں جائیں گی جبکہ کوئی بھی مقامی الیکشن آزادی کا نعم البدل نہیں ہو سکتے۔ انہوں نے کشمیریوں کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ محصور ، مظلوم مگر بہادر کشمیری عوام نے صرف ایک ہی حقیقی مقصد
اپنی مادر وطن کشمیر کی بھارت سے مکمل آزادی کی خاطر لاکھوں قربانیاں دی ہیں۔ کوئی بھی مقامی انتخابات آزادی کا متبادل کبھی نہیں بن سکتے ہیں۔ اور نہ ہی دھونس دباو سے تحریک آزادی کشمیر کو کبھی دبایا جاسکتا ہے، تاریخ گواہ ہے کہ جتنا بھی تحریک کو دبایا جائے وہ اتنی ہی مظبوط ہوجاتی ہیں۔ آزادی حاصل کرنے تک کشمیری قربانی دیتے رہیں گے۔ تمام حریت پسند قیادت کو آزادی کے حصول کے لیے متحد ہونا چاہئے۔ کسی بھی مزاکراتی عمل کیلئے اقوام متحدہ کی قرار دادیں بنیادی دستاویز ہے البتہ مزاکرات کا آغاز کرنے کیلئے سہ فریقی مزاکرات کا خیر مقدم کیا جائیگا بشرطیکہ کہ مزاکرات میں ریاست جموں کشمیر کی مسلمہ حریت پسند قیادت کو شامل کیا جاتا ہے۔مسلۂ کشمیر کا کوئی بھی فیصلہ تب تک دیر پا نہی ھوگا جب تک اس طویل مسلے کو کشمیریوں کے خواہشات کے مطابق حل کیا جائیگا۔

جبکہ چیئرمین جموں کشمیر سالویشن موومنٹ الطاف احمد بٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر ، پاکستان اور پوری دنیا میں کشمیریوں پر زور دیا کہ وہ نریندر مودی کے مجوزہ دورہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے خلاف احتجاج کریں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ چیئرمین جموں کشمیر سالویشن موومنٹ الطاف احمد بٹ نے کہا کہ دنیا جانتی ہے کہ مودی کشمیر میں انسانی حقوق می پامالیوں اور خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو چکا ہے۔ مودی نے کشمیریوں پر ظلم کے دروازے صرف اس لئے کھولے ہیں کہ وہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت کا مطالبہ کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مودی اور اس کےاعلی کار نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں جاری افراتفری کا منصوبہ بنایا ، آرٹیکل 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد کشمیر کا منصوبہ بندی کے ساتھ معاشی قتل کیا گیا۔ محصور اور مظلوم کشمیریوں کو آزادی کے مطالبے کے لئے سزا دینے کے دی گئیں۔ 1991 کے کنن پوش پورہ میں اجتماعی زیادتی کے واقعہ کو یاد کرتے ہوئے ، انہوں نے مزید کہا کہ 23 فروری 1991 کو 30 سال قبل ، بھارتی مسلح افواج کشمیر کے ضلع کپواڑہ کے کنان اور پوش پورہ کے جڑواں گاؤں میں داخل ہوگئیں۔ اور اس آپریشن کے دوران فوجیوں نے گائوں کے مردوں کو گھروں سے باہر گھسیٹتے ہوئے گاؤں میں مکانات اور گوداموں کو آگ لگا دی۔ گھروں میں تنہا خواتین کے ساتھ زیادتی کی گئی۔ اس رات کسی بھی خاتون کو نہیں بخشا گیا ، نوعمر لڑکیوں ، شادی شدہ خواتین یا بڑی عمر کی عورتوں سمیت ہر کسی پر ساری رات بھارتی فوجیوں نے وحشیانہ تشدد کیا۔ تاحال مجرموں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکی کیونکہ بھارتی فوج بدستور بھارتی حکومت کینجانب سے دیے جانے والے اختیارات سے لطف اندوز ہورہی ہے۔ جو بھارتی فوجیوں کو بھارتی حکومت نے آرمرڈ فورسز سپیشل پاور ایکٹ جیسے سخت قوانین کے کے تحت اختیارات دیے۔ انہوں نے حقائق اور اعدادوشمار دیتے ہوئے کہا کہ بد نظمی ، عصمت دری اور تشدد کشمیر میں بھارتی مسلح افواج کے لئے معمول بن گیا ہے ، پچھلے 32 سالوں میں 11،234 خواتین گینگ ریپ اور عصمت دری کا شکار ہوئیں ، 7،163 کشمیریوں کو حراست میں مارا گیا ، 110،386 مکانات ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا تاہم اسوقت مقبوضہ کشمیر میں 22،924 خواتین بیوہ ہیں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ایسی ہیومن رائٹس آرگنائزیشنز کو مودی حکومت کا اصل فاشسٹ چہرہ ظاہر کرنے سے روکنے کے لئے ہندوستان میں روک لیا گیا ہے۔ وائس چیئرمین جموں و کشمیر سالویشن موومنٹ عبدالقدیر ڈار نے کہا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات ہونی چاہئیں اور کنن پوش پورہ جیسے انصاف کے منتظر متاثرین کو غیر جانبدارانہ اور آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات کے ذریعے انصاف فراہم کرنا چاہئے۔