حکومتِ پاکستان براڈ شیٹ سے متعلق معاہدے سامنے لے آئی

اسلام آباد : مشیر داخلہ واحتساب شہزاداکبر نے براڈشیٹ سے متعلق معاہدے کی دستاویزات پبلک کردیں اور کہا دستاویز پبلک کئےبغیر شفافیت نہیں آسکتی، ان کی چوری کا اندازہ 16ارب روپے لگایا گیا یہ وہ این آراوکی قیمت ہے۔

تفصیلات کے مطابق مشیر داخلہ و احتساب شہزاد اکبر نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا براڈشیٹ کےمعاملے پر کچھ چیزیں بتاناچاہتاہوں ، وزیراعظم کی ہدایت پر اٹارنی جنرل آفس نے براڈ شیٹ سے متعلق اہم دستاویز پبلک کرنے کیلئے وکلا نے رابطہ کیا، براڈشیٹ کی جانب سے ای میل موصول ہوئی ہے ، وزیراعظم کی ہدایت پر براڈشیٹ سے متعلق یہ دونوں فیصلے کے دستاویز پبلک کررہےہیں۔

شہزاد اکبر کا کہنا تھا کہ براڈشیٹ کی طرف سے بھی بذریعہ ای میل تحریری اجازت ہے، لائبلٹی اور کوانٹم کی دستاویز منظرعام پر لائےجارہےہیں، 2016کی یہ دستاویز پبلک کئےبغیر شفافیت نہیں آسکتی۔

مشیر داخلہ نے معاہدے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا براڈشیٹ کیساتھ ایسٹ ریکوری کامعاہدہ 2000میں ہوا، اس وقت جون2000میں پرویز مشرف کی حکومت تھی اور دسمبر2000میں نوازشریف ڈیل کرکے سعودی عرب چلے گئے۔

شہزاد اکبر نے بتایا کہ اکتوبر2003میں حکومت نے براڈشیٹ کیساتھ معاہدہ منسوخ کیا، براڈشیٹ کیساتھ سیٹلمنٹ پرادائیگی کے وقت پی پی کی حکومت تھی، 2016کو لائبلٹی ایوارڈ پاکستان پرہوتی ہے ، جب نوازشریف وزیراعظم تھے، اگست 2016 میں اس کی ہئیرنگ ہوتی ہے،جولائی 2018 میں فیصلہ آیا، ہماری اگست2018میں حکومت آئی تھی اور براڈشیٹ معاملے پر ہائیکورٹ میں اپیل2019میں کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اپیل کا فیصلہ براڈ شیٹ کے حق میں آتا ہے، 31دسمبر 2020 کو ادائیگی کر دی جاتی ہے، فہرست میں ان کے نام موجود ہیں جس مدمیں پیسے حکومت پاکستان نے ادا کئے۔

شہزاد اکبر نے بتایا کہ نواز شریف کی ایون فیلڈ پراپرٹی کی مد میں براڈشیٹ کوحصہ دیا گیا، 21.5میں سے 20.5ملین شریف خاندان کی مد میں ادا کرناپڑے جبکہ شون گروپ ،شیر پاؤ ودیگر کی مد میں صرف 1.08 ملین ڈالر ادا کئے ۔

مشیر داخلہ و احتساب نے کہا کہ ہمیں یہ ماضی کے خمیازے بھگتنے پڑرہےہیں ، اس میں لکھا ہے کہ ایون فیلڈ سمیت دیگر اثاثے ثابت ہوچکے ہیں، اگر یہ ماضی کے بھی این آر اوز ہیں تو انھیں بھی دیکھنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کےحکم کےمطابق فیصلے کوپبلک کردیاہے، ہم سب کادل دکھتاہےکہ احتساب ہوتانظرنہیں آرہا، احتساب ہوتانظرنہ آنےکی اصل وجہ ماضی کےاین آراوہیں۔

شہزاد اکبر نے کہا کہ قانون کے مطابق پراسس سے گزار کرسزا دلانا ضروری ہے، براڈشیٹ سے2000 کے معاہدے کو 31دسمبر 2020تک دیکھنا ضروری ہے، ایک شخص ڈس کوالیفائی ہوگیا مگرپارٹی آج بھی لیڈرمانتی ہے، ان کی چوری کااندازہ16ارب روپےلگایاگیایہ وہ این آراوکی قیمت ہے۔

مشیر داخلہ کا کہنا تھا کہ جولائی2019 میں ہائیکورٹ میں اپیل پرفیصلہ ہمارے خلاف آیا، اپیل میں ہمارا موقف تھا کہ ریکوریز نہیں ہوئی ہیں ، براڈ شیٹ کے معاہدے میں منصورالحق کانام نہیں ، ہمیں اپنے اداروں پربھی اعتماد کرنا چاہیے، براڈشیٹ کو ادائیگی ٹیکس دہندگان کی رقم سے ہوئی۔

انھوں نے مزید کہا کہ 48گھنٹے میں وزیراعظم نے سفارشات مانگی وہ بھی پبلک کی جائیں گی، ایک چیز واضح ہے ماضی کی ڈیلز اور این آر او کا خمیازہ بھگتناپڑ رہا ہے، ڈیل کو مفاہمت کانام دیا جاتا ہے ، جوملک وقوم کیلئےبڑانقصان ہے، کمیٹی ہی بتائے گی کہ کس کے خلاف اور کیا کارروائی ہونی چاہئے۔