براڈ شیٹ کے سربراہ کاوے موسوی: برطانیہ ایک ارب ڈالر کس نے منتقل کیے یہ ’پاکستانی حکومت سے پوچھیں، انھیں معلوم ہے‘

پاکستانی سیاست میں ان دنوں براڈ شیٹ نامی ایک کمپنی اور اس کے سربراہ کاوے موسوی کی طرف سے سامنے آنے والے حالیہ بیانات کی بازگشت ہے۔ انھوں نے پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے نیب پر ’دھوکہ دہی‘ کا الزام عائد کیا ہے۔

کاوے موسوی نے یہ دعوٰی کیا ہے کہ انھوں نے سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے خاندان سمیت کئی پاکستانی سیاستدانوں کے بیرونِ ممالک میں بنائے گئے لاکھوں ڈالرز مالیت کے بینک اکاؤنٹس اور اثاثہ جات کا سراغ لگا لیا تھا۔

اسی تناظر میں ان کے اس بیان نے پاکستان میں ایک تنازع کو جنم دیا جس میں انھوں نے الزام عائد کیا کہ ’شریف خاندان نے اپنے اثاثہ جات کے حوالے سے ان کی تحقیقات کو سامنے نہ لانے کے عوض انھیں 25 ملین ڈالر رشوت کی پیشکش کی تھی۔‘ شریف خاندان کی طرف سے ان الزامات کی تردید کی گئی ہے۔

کاوے موسوی کی طرف سے یہ بیانات اس وقت سامنے آئے جب حال ہی میں براڈ شیٹ ایل ایل سی نے پاکستانی حکومت کے خلاف برطانیہ میں ثالثی کا ایک مقدمہ جیتا ہے۔ اس کے بعد عدالتی حکم پر انھیں برطانیہ میں پاکستانی سفارتخانے کے بینک اکاؤنٹ سے لگ بھگ 29 ملین ڈالر کی رقم ادا کی گئی ہے۔

کاوے موسوی کون تھے، وہ پاکستانی سیاسی شخصیات کے بیرونِ ملک اثاثہ جات کی کھوج کیوں لگا رہے تھے اور پاکستانی حکومت کو نہ چاہتے ہوئے بھی اتنی خطیر رقم انھیں کیوں ادا کرنا پڑی؟

بی بی سی نے ایک حالیہ انٹرویو میں براڈ شیٹ ایل ایل سی کے سربراہ کاوے موسوی سے ان تمام سوالات کے جواب جاننے کے ساتھ ساتھ ان کی طرف سے نیب اور شریف خاندان کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات کے حوالے سے بات چیت کی۔

کاوے موسوی نے بی بی سی کو بتایا کہ پاکستانی سیاسی شخصیات کے بیرونِ ملک اثاثہ جات کا سراغ لگانے کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کے حوالے سے موجودہ پاکستانی حکومت کے ساتھ ان کی بات چیت جاری ہے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ پہلے ہی ‘رضاکارانہ طور پر’ موجودہ حکومت کو برطانیہ میں ایک ارب ڈالر مالیت کے ایک مشکوک بینک اکاؤنٹ کی نشاندہی کر چکے ہیں تاہم ’پاکستانی حکومت نے تاحال اس کا کھوج لگانے میں دلچسپی ظاہر نہیں کی۔‘

وہ اکاؤنٹ کس کا ہے، اس سوال پر موسوی کا کہنا تھا کہ ‘یہ آپ پاکستانی حکومت سے پوچھیں، انھیں معلوم ہے۔’

دلچسپ امر یہ ہے کہ 13 جنوری کو ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا کہ براڈ شیٹ کے انکشاف کے مطابق ایک پاکستانی سیاسی شخصیت نے ایک ارب ڈالر برطانیہ منتقل کیے تھے تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ براڈ شیٹ نے تاحال حکومت کو اس اکاؤنٹ ہولڈر شخصیت کا نام نہیں بتایا۔

موسوی نے الزام عائد کیا کہ اس اکاؤنٹ کی نشاندہی پر موجودہ حکومت کے ایک نمائندے نے ان سے ’اپنے لیے اس میں کمیشن کی بات بھی کی تھی۔‘

کاوے موسوی کے مطابق حکومت کے ساتھ معاہدہ ہو جانے کی صورت میں وہ ‘شریف خاندان کے خلاف جمع کیے گئے شواہد پاکستانی حکومت کے حوالے کر سکتے ہیں۔’

کاوے موسوی کے پاس شریف خاندان کے خلاف کس نوعیت کے شواہد موجود ہیں، یہ انھوں نے کب، کیسے اور کہاں سے حاصل کیے، یہ کہانی ان کی پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر آمد سے شروع ہوتی ہے۔

کاوے موسوی کون ہیں اور براڈشیٹ کمپنی کا پاکستان سے کیا تعلق؟

برطانیہ نژاد کاوے موسوی بنیادی طور پر انسانی حقوق کے وکیل ہیں۔

وہ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم بھی دے چکے اور بین الاقوامی مصالحتی عدالت میں ثالث کے طور پر کام کر چکے ہیں۔

آئل آف مین میں رجسٹرڈ اثاثہ جات کی کھوج لگانے والی ان کی کمپنی براڈ شیٹ ایل ایل سی پہلی مرتبہ سنہ 2000 میں پاکستان آئی تھی۔ اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے نیب کے لیے ان کی خدمات حاصل کی تھیں۔

مشرف
،تصویر کا کیپشنبراڈ شیٹ ایل ایل سی پہلی مرتبہ سنہ 2000 میں پاکستان آئی تھی۔ اس وقت کے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف نے نیب کے لیے ان کی خدمات حاصل کی تھیں

کاوے موسوی کے مطابق جنرل پرویز مشرف خاص طور پر نواز شریف، بینظیر بھٹو اور آصف زرداری کے بیرونِ ملک اثاثہ جات کا سراغ لگا کر مبینہ طور پر لوٹی گئی رقم پاکستان واپس لانے میں دلچسپی رکھتے تھے۔

’لیکن ہم کسی سیاسی انتقامی کارروائی کا حصہ نہیں بننا چاہتے تھے جو کہ اس وقت ظاہر ہو رہا تھا کہ مشرف کرنا چا رہے تھے۔ اس لیے ہم نے واضح کر دیا کہ ہم صرف ان تین شخصیات کے پیچھے نہیں جائیں گے۔‘

براڈشیٹ اور نیب کے درمیان کیا معاہدہ طے پایا؟

ابتدائی بات چیت کے بعد نیب اور پاکستانی حکومت کے ساتھ ان کا معائدہ طے پایا۔ انھیں ان تین شخصیات سمیت 200 اہداف کی ایک فہرست فراہم کی گئی۔

معاہدے کے مطابق نیب نے انھیں مطلوبہ دستاویزات فراہم کرنا تھیں جن کی بنیاد پر براڈشیٹ ایل ایل سی کو ان افراد کی طرف سے بیرونِ ملک رکھی گئی مبینہ کرپشن کی رقم کا سراغ لگا کر ثبوت فراہم کرنا تھے اور اسے پاکستان واپس لانے میں مدد فراہم کرنا تھی۔

‘نیب نے ہم سے کہا کہ ہمارے پاس پیسے نہیں، آپ پیسہ خرچ کریں، ان افراد کے اثاثہ جات کا سراغ لگائیں اور لوٹی ہوئی رقم واپس دلانے میں ہماری مدد کریں۔ کل رقم کا 20 فیصد حصہ آپ کو معاوضے کے طور پر دیا جائے گا۔’

براڈشیٹ نے شریف خاندان کے خلاف کیا ڈھونڈا؟

کاوے موسوی کے مطابق وہ سابق وزیرِاعظم نواز شریف کے پیسے کا سراغ لگا رہے تھے اور انھوں نے مبینہ طور پر کئی بینک اکاؤنٹس کے حوالے سے موزوں شواہد حاصل کر لیے تھے جن میں سے کئی اکاؤنٹس کو منجمد بھی کروایا گیا تھا۔

‘آپ کو جنیوا میں خریدے گئے نیکلس (ہار) کی کہانی معلوم ہے، آپ کو جنیوا میں استعمال کیے گئے کریڈٹ کارڈ کی کہانی بھی معلوم ہو گی اور پھر پانامہ پیپرز سامنے آتے ہیں اور ہمیں وہ سب کچھ بتا دیتے ہیں جو ہمیں جاننے کی ضرورت تھی۔‘

تاہم جب ان سے پوچھا گیا کہ جن بینک اکاؤنٹس کا کھوج انھوں نے نکالا وہ کون سے تھے اور کن ممالک میں موجود بنائے گئے تھے تو موسوی کا کہنا تھا کہ وہ ‘تاحال یہ معلومات عام کرنے کے مجاز نہیں کیونکہ یہ معاملہ اس وقت برطانیہ کی عدالت کے پاس تھا تاہم اگر کبھی اس حوالے سے دیا گیا عدالتی فیصلہ سامنے منظرِ عام پر آ جاتا ہے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جج نے اس میں کیا لکھا ہے۔’

‘ایک مثال میں آپ کو دے سکتا ہوں کہ ہمیں (امریکی شہر) نیو جرسی میں اکاؤنٹس ملے، ہمیں لندن، سوئٹرزلینڈ اور جزیرہ کیمن میں اکاؤنٹس ملے۔ ہم واضح طور پر دیکھ سکتے تھے کہ یہ اکاؤنٹس یا تو خود نواز شریف اور یا ان کے معتبر دوستوں کے تھے۔’

‘ہم نے لاکھوں ڈالرز مالیت کے اکاؤنٹس کا سراغ لگایا’

تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس سے قبل کے وہ ان اکاؤنٹس کو منجمد کروانے کے لیے حرکت میں آتے انھیں دھوکہ دہی سے ہٹا دیا گیا۔

یاد رہے کہ نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ سنہ 2003 میں ختم کر دیا تھا۔

کاوے موسوی کے مطابق نیب نے مؤقف اختیار کیا تھا کہ براڈ شیٹ مطلوبہ اہداف حاصل نہیں کر پائی تھی۔ براڈشیٹ کے سربراہ کے مطابق حقیقت اس کے برعکس تھی۔

’حقیقت میں ہم نے نیب کو لاکھوں ڈالرز مالیت کے بینک اکاؤنٹس کا سراغ لگا کر ثبوت فراہم کیے اور ان سے کہا کہ وہ اس رقم کو واپس لانے کے لیے متعلقہ حکومتوں کو قانونی چارہ جوئی کی درخواست دیں اور درخواست تحریر بھی کر کے فراہم کی۔’

انھوں نے دعوٰی کیا کہ نیب نے نہ صرف اس پر عمل نہیں کیا بلکہ ‘اگلے ہی روز نیب کی طرف سے ہمیں کہا جاتا تھا کہ آپ اس ہدف کا نام فہرست سے نکال دیں۔’

‘نیب نے اہداف کے بارے خفیہ معلومات لیک کیں’

کاوے موسوی نے مثال دیتے ہوئے سابق وزیرِ داخلہ آفتاب خان شیرپاؤ کا نام لیا۔

نیب
،تصویر کا کیپشنکاوے موسوی نے پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے نیب پر ‘دھوکہ دہی’ کا الزام عائد کیا ہے تاہم اب تک نیب کی جانب سے اس پر کوئی جواب سامنے نہیں آیا

ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے شیر پاؤ کے ایک لاکھوں ڈالر مالیت کے اکاؤنٹ کا سراغ نیو جرسی میں لگایا۔ نیب کو آگاہ کیا گیا اور انھیں کہا گیا کہ آپ نیو جرسی میں حکام کو لکھیں تاکہ یہ رقم پاکستان لائی جا سکے۔

’آپ کو معلوم ہے نیب نے کیا کِیا؟ ہمیں اعتماد میں لیے بغیر انھوں نے حکام کو لکھا کہ ہمیں اس اکاؤنٹ سے مسئلہ نہیں ہے لہذا اسے کھول دیا جائے۔ اس کے بعد اس میں سے رقم نکلوا لی گئی اور ساتھ ہی شیر پاؤ کو وزیرِ داخلہ بنا دیا گیا۔‘

کاوے موسوی کا کہنا تھا کہ ‘نیب نے اہداف کے پیچھے جانے کے بارے میں فراہم کی جانے والی خفیہ معلومات بھی لیک کیں۔

‘ہم ایک ہدف کے پیچھے جاتے تھے تو پتا چلتا تھا کہ وہ پہلے ہی اکاؤنٹ سے پیسے نکلوا کر اکاؤنٹ بند کر کے نکل گیا ہے کیونکہ نیب کے اندر سے کوئی انھیں پہلے ہی خبردار کر دیتا تھا کہ ہم اس کے پیچھے آ رہے ہیں۔’

کاوے موسوی کے مطابق جب ‘ہم اس حوالے سے نیب سے سوال کرتے تھے تو وہ انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اس کی تردید نہیں کرتے تھے بلکہ ہمیں کہا جاتا تھا کہ آپ اس شخص کا نام اہداف کی فہرست سےنکال دیں۔’

براڈشیٹ کو ملنے والی رقم 29 ملین ڈالرز کیسے بنی؟

کاوے موسوی کے مطابق انھوں نے لاکھوں ڈالرز کی رقم ان تین برس میں ان اکاؤنٹس اور اثاثہ جات کا سراغ لگانے پر خرچ کی تاہم نیب نے ان سے معاہدہ ختم کرنے کے بعد انھیں کسی قسم کی ادائیگی نہیں کی۔

سنہ 2004 میں انھوں نے معاوضے کی رقم حاصل کرنے کے لیے مصالحتی عدالت سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد نیب کے ایک نمائندے نے انھیں پانچ لاکھ پاؤنڈز لے کر چلے جانے کی پیشکش کی جسے لینے سے انھوں نے انکار کر دیا۔

‘میں نے ان سے کہا کہ جنرل صاحب اس میں دو صفر اور بھی لگا لیں کیونکہ جتنی رقم کا ہم نے آپ کو سراغ لگا کر دیا تھا اس کا 20 فیصد اتنا ہی بنتا ہے۔’ وہ اس پر راضی نہیں ہوئے اور عدالتی کارروائی چلتی رہی۔

موسوی نے شریف خاندان پر رشوت دینے کا الزام کیوں لگایا؟

براڈ شیٹ کے موسوی نے دعوٰی کیا کہ اسی عدالتی کارروائی کے دوران سنہ 2012 میں انجم ڈار نامی ایک شخص نے ان سے رابطہ کیا اور خود کو نواز شریف کا بھتیجا ظاہر کیا۔

نواز شریف
،تصویر کا کیپشنوزیرِ اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز موسوی کے دعوؤں کی تردید کر چکے ہیں

‘اس شخص نے کہا کہ وہ شریف خاندان کے خلاف ہمارے پاس موجود معلومات کے بارے بات کرنا چاہتا ہے۔’

انھوں نے الزام عائد کیا کہ اس ملاقات کے دوران اس شخص نے شریف خاندان کے اثاثہ جات کے حوالے سے معلومات اور شواہد سامنے نہ لانے کے عوض 25 ملین ڈالر ادا کرنے کے پیشکش کی جسے انھوں نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ اس قسم کی کوئی بھی رقم مصالحتی عدالت کے ذریعے ادا کی جائے۔

تاہم جب ان سے یہ پوچھا گیا کہ جب وہ سنہ 2003 میں اپنی تحقیقات ختم کر چکے تھے تو لگ بھگ دس برس بعد شریف خاندان ان سے کیوں رابطہ کرتا، کاوے موسوی کا کہنا تھا کہ ‘شریف خاندان کو معلوم تھا کہ جب یہ معاملہ مصالحتی عدالت کے سامنے جائے گا تو جج اس کی طے میں جائے گا اور یوں ایک مرتبہ پھر ان کی مبینہ کرپشن کا معاملہ سامنے آ جائے گا جو وہ نہیں چاہتے تھے۔’

تاہم سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے صاحبزادے حسین نواز مقامی ذرائع ابلاغ میں ان کے اس بیان کی تردید کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے خاندان میں اس نام کا کوئی شخص ہے ہی نہیں اور یہ کہ ایک محقق کی حیثیت سے موسوی کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وہ الزام عائد کرنے سے پہلے اس کی تصدیق کیسے کر سکتے تھے۔

اس کے جواب میں موسوی کا کہنا تھا کہ ‘اس شخص نے انھیں نواز شریف کے گھر پر ان کے ساتھ بغلگیر ہونے کی اپنی تصاویر دکھائی تھیں اور ساتھ ہی میرے سامنے انھوں نے نواز شریف کے ساتھ فون پر بات کی تھی۔ میں نواز شریف کی آواز کو پہچان سکتا تھا۔’

پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے براڈ شیٹ کے معاملے پر حال ہی میں مقامی ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘پرویز مشرف نے پاکستانی چھ سو کروڑ روپے ایک نجی کمپنی کو دیے جو اس وقت چھ ماہ پہلے رجسٹرڈ ہوئی تھی اور وہ چھ سو کروڑ روپے اس لیے دیے گئے تاکہ اس وقت کے منتخب وزیرِاعظم کے خلاف مقدمہ بناؤ۔’

براڈشیٹ، نیب کے درمیان معلومات کا شریف خاندان کو کیسے پتا چل سکتا تھا؟

بی بی سی نے کاوے موسوی سے دریافت کیا ہے کہ شریف خاندان کے خلاف مبینہ شواہد کی معلومات جب صرف ان کے اور نیب کے درمیان تھیں تو شریف خاندان کو کیسے پتا چلا کہ وہ شواہد کیا تھے اور کس نوعیت کے تھے جس کے لیے وہ اتنی بڑی رقم دینے کو تیار ہو جاتے۔

اس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ معلومات نیب ہی میں سے کسی نے شریف خاندان کو خفیہ طور پر فراہم کی ہوں گی کیونکہ جب شریف خاندان کے اس شخص نے ہم سے رابطہ کیا تو ہم نے سوچا کہ کیا یہ محض اتفاق ہو سکتا ہے۔ یہ اتفاق نہیں ہو سکتا تھا۔’

ان کا کہنا تھا کہ نیب اور پاکستانی حکومت کی ‘بدنیتی شروع دن ہی سے واضح تھی۔ جب ہم نواز شریف کی بیرونِ ملک رکھی دولت کا کھوج لگا رہے تھے تو اسی دوران جنرل مشرف نے انہیں طیارے پر بٹھا کر سعودی عرب بھیج دیا۔’

کاوے موسوی اور موجودہ حکومت کے درمیان کیا بات چیت ہوئی؟

موسوی کا کہنا تھا کہ معاوضے کی رقم کو کم کروانے کے لیے پاکستان کی موجودہ حکومت کی جانب سے کیے جانے والے مذاکرات کے دوران سنہ 2018 میں انھوں نے پاکستانی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا ایک مرتبہ پھر ارادہ ظاہر کیا تھا۔

موسوی کے مطابق موجودہ حکومت کے اندر ہی سے ان کے ساتھ بات چیت کرنے والے چند افراد نے انھیں پیشکش کی کہ ‘ہم آپ کا نیا کانٹریکٹ کروا دیں گے لیکن یہ بتائیں کہ اس میں ہمارا حصہ کتنا ہو گا۔’ ان کا کہنا تھا کہ اس کے فوراً بعد انھوں تمام تر بات چیت روک دی تھی۔

عمران خان
،تصویر کا کیپشنعمران خان: براڈ شیٹ سے ہم اپنی اشرافیہ کی منی لانڈرنگ اور تحقیقات رکوانے والوں کے حوالے سے مکمل شفافیت چاہتے ہیں

‘ہم نے ان سے کہا کہ ہم معاوضے کی اس رقم کو بھول جاتے ہیں اور آئیں مل کر اس پر پھر سے کام کرتے ہیں۔ ہم نے معاہدے کا ایک مسودہ بھی تیار کر لیا تھا لیکن عمران (وزیرِاعظم عمران خان) کی حکومت کے اندر ہی سے چند عناصر نے ایک مرتبہ پھر اس کوشش کو سبوتاژ کر دیا۔’

کاوے موسوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی پاکستانی حکومت کے ساتھ دوبارہ کام کرنے کے حوالے سے بات چیت جاری ہے۔

ایک ارب ڈالر کے اکاؤنٹ میں کمیشن کس نے مانگا؟

کاوے موسوی کے مطابق سنہ 2019 میں لندن کے ایک کیفے میں ملاقات کے دوران انھوں نے پاکستانی حکومت کے چند نمائندوں کو ایک ارب ڈالر مالیت کے ایک مشتبہ بینک اکاؤنٹ کے بارے میں بتایا۔ تاہم ان میں سے ایک نمائندے نے ان سے کہا کہ اس میں ان کا کمیشن کتنا ہو گا۔

‘میں نے فوراً اس کو جواب دیا کہ ہم اس طرح کام نہیں کرتے اور میں نے فوراً اپنے وکلا کے ذریعے پاکستانی حکام کو اس بارے میں آگاہ بھی کر دیا۔ ہمیں جواب آیا کہ آپ لکھ کر دیں۔ میں نے ان سے کہا کیا آپ واقعی لکھوانا چاہتے ہیں کیونکہ یہ تو آپ کو اڑا کر رکھ دے گا۔’

حال ہی میں پاکستان میں حزبِ اختلاف کی چند جماعتوں کی طرف سے یہ الزام عائد کیا جا رہا تھا کہ یہ شخص مبینہ طور پر شہزاد اکبر خود تھے۔

تاہم موسوی نے وضاحت کی ہے کہ ‘ان سے کمیشن کی بات کرنے والے وزیرِاعظم کے مشیر شہزاد اکبر نہیں تھے۔’

یاد رہے کہ عمران خان نے 13 جنوری کو اپنے ٹویٹ میں کہا ہے کہ ’براڈ شیٹ سے ہم اپنی اشرافیہ کی منی لانڈرنگ اور تحقیقات رکوانے والوں کے حوالے سے مکمل شفافیت چاہتے ہیں۔‘

عمران خان

انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ’براڈ شیٹ کے انکشافات نےایک مرتبہ پھر ہماری حکمران اشرافیہ کی بھاری بھرکم کرپشن اور منی لانڈرنگ بےنقاب کردی ہے۔‘

چند روز قبل ایک بیان میں عمران خان نے یہ بھی کہا کہ براڈ شیٹ کے انکشاف کے مطابق ایک پاکستان سیاسی شخصیت نے سعودی سے ایک ارب ڈالر برطانیہ منتقل کیے ہیں۔

’براڈ شیٹ نے تاحال حکومت کو اس اکاؤنٹ ہولڈر کا نام نہیں بتایا۔‘

‘میں عمران خان کو جانتا ہوں’

کاوے موسوی کا کہنا تھا کہ ‘میں عمران خان کو جانتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ ایک ایماندار شخص ہے اور بظاہر لگتا ہے کہ وہ اس حوالے سے سنجیدہ ہیں۔

’تاہم کیا وہ یہ کام کرنے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں، یہ مجھے معلوم نہیں۔ ان کی حکومت کے لوگوں کے ساتھ حالیہ تجربے کے بعد میں کچھ زیادہ پُرامید نہیں ہوں۔’

ان کا کہنا تھا کہ وہ صرف اس صورت میں پاکستانی حکومت کے ساتھ کام کرنے پر راضی ہوں گے جب انھیں یقین ہو جائے گا کہ ‘نیب کے اندر موجود کرپٹ عناصر کو نکال دیا گیا ہے اور حکومت پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کے بارے سنجیدہ ہے۔’