پی آئی اے کا طیارہ ملائیشیا میں روک لیا گیا: ’سارے معاملے سے ملائیشیا کا کچھ لینا دینا نہیں‘

پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کی اسلام آباد سے ملائیشیا جانے والی پرواز کو کوالا لمپور ایئرپورٹ پر روک لیا گیا ہے۔

پی آئی اے کے ترجمان نے تصدیق کی ہے کہ بوئنگ 777 (فلائٹ 9895) کو کوالالمپور ایئر پورٹ پر روک لیا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پرواز میں 170 مسافر موجود ہیں جن کو تاحال ایئرپورٹ پر ہی رکھا گیا ہے۔

پی آئی اے کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ پی آئی اے اور ایک آئرش کمپنی ایئر کیپ کے درمیان لیز کی ادائیگی کا معاملہ پچھلے کچھ عرصے سے چل رہا تھا جس کی بنیاد پر برطانیہ کی عدالت نے جہاز کو روکنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ خان نے بی بی سی کو بتایا کہ پرواز روکنے کی وجہ پیسوں کی ادائیگی کا معاملہ ہے۔

‘پی آئی اے کا ایک کمپنی کے ساتھ ادائیگیوں کے معاملے پر تنازع پچھلے چھ ماہ سے برطانیہ کی عدالت میں زیرِ سماعت تھا۔ اسی کمپنی نے ایک علیحدہ ملک میں جا کر پی آئی اے کے خلاف حکمِ امتناعی حاصل کیا۔

’اس ادائیگی کے معاملے پر برطانیہ کی عدالت نے یکطرفہ فیصلہ کرکے فلائٹ کو روک لیا ہے۔ وہاں کی مقامی عدالت نے پی آئی اے کا مؤقف سنے یا نوٹس دیے بغیر فیصلہ سنایا ہے۔ اور عدالت یکطرفہ فیصلہ نہیں سنا سکتی۔ ہماری کوشش ہے کہ کسی طرح اٹارنی جنرل اور سفارتخانے کے ذریعے معاملہ حل کروالیں۔’

ایک ویڈیو بیان میں ترجمان نے کہا کہ جہاں تک عدالتی کارروائی کی بات ہے تو اس کے بارے میں چھٹی گزرنے کے بعد وہ ملائیشین عدالت میں کارروائی کریں گے۔

پی آئی اے

اس کے بارے میں شعبہ ہوابازی اور فضائی امور پر نظر رکھنے والے صحافی طاہر عمران نے کہا کہ ‘اس سے پہلے پی آئی اے کی پرواز کے ساتھ ایسا ہوتے ہوئے نہیں دیکھا۔

’طیارے لیز پر ہوتے ہیں لیکن اس طرح سے کسی پرواز کو ایئرپورٹ پر نہیں روکا گیا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عموماً کسی لیزنگ کمپنی کی طرف سے ‘ایسا رویہ تب اختیار کیا جاتا ہے جب کوئی طیارہ بند ہونے جارہا ہو۔’

طاہر عمران نے کہا کہ یہ پی آئی اے کی جانب سے بھی غیر ذمہ دارانہ حرکت اس لیے ہے کہ ایک تنازع میں گھرے جہاز کو کسی اور ملک کیوں بھیجا گیا؟‘

تاحال پی آئی اے کے ترجمان کا کہنا ہے کہ 170 مسافروں کو ایمیریٹس کی فلائٹ سے واپس پاکستان بھیجا جارہا ہے۔ اور کل دوپہر تک ان کی واپسی ممکن ہوجائے گی۔

تاہم پاکستان کے دفترِ خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے اس بارے میں کہا ہے کہ ملائیشیا میں پاکستان کا ہائی کمیشن معاملات نمٹانے میں مصروف ہے۔ جبکہ ان کا کہنا ہے کہ کوالا لمپور سے امیریٹس کی فلائٹ ای کے 343 کے ذریعے مسافر رات تک پاکستان کے لیے روانہ ہوجائیں گے۔

سارے معاملے سے ملائیشیا کا کچھ لینا دینا نہیں

وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل نے متعدد ٹویٹس میں اس واقعے کو سمجھانے کی کوشش کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ملائیشیا میں روکا گیا یہ طیارہ 12 سال پہلے لیز پر لیا گیا تھا۔ کورونا کی وجہ سے یہ طیارہ پچھلے مہینوں میں زیر استعمال نہیں ہو رہا تھا، جیسے پوری دنیا میں کورونا کی وجہ سے ریٹ کم ہوئے پی آئی اے بھی ان کے ساتھ نئے ریٹس پر مذاکرات کر رہا تھا۔‘

شہباز گل

’ملائیشیا سے سارے معاملے کا کچھ لینا دینا نہیں تھا۔ نہ ہی لیز کرنے والی کمپنی ملائیشیا کی تھی نہ ہی وہاں کوئی کیس چل رہا تھا۔ اچانک سٹے آرڈر لے کر وہاں طیارہ روک لیا گیا۔‘

شہباز گل نے مزید کہا ہے کہ ’ہمیں پی آئی اے کی حمایت کرنے چاہیے کیونکہ وہ بچت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

لیز کا طریقہ کار کیا ہوتا ہے؟

طاہر عمران نے بتایا کہ اکثر جہاز دو طریقوں سے لیز پر لیے جاتے ہیں۔

’ایک طریقہ کار وہ ہے جس میں جہاز کے ساتھ ساتھ عملہ بھی ساتھ آتا ہے جسے ویٹ لیز کہا جاتا ہے۔ اور دوسرا طریقہ ڈرائی لیز ہوتا ہے جس کے تحت صرف جہاز لیز پر لیا جاتا ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ پی آئی اے چھ سال کے لیے لیز پر جہاز لیتی ہے۔ اس کے لیے اخبار میں اشتہار دے کر اور پھر ادارہ جہازوں کو دیکھ کر، مناسب قیمت دیکھ کر خریدا جاتا ہے۔

ایئر کیپ کی بات کرتے ہوئے طاہر عمران نے بتایا کہ ‘ماہانہ کرائے پر پی آئی اے یہ جہاز خریدتی ہے اور یہ تمام تر معاملات ایک معاہدے کے تحت طے ہوتے ہیں۔

’اس سے پہلے پی آئی اے نے پانچ اے ٹی آر ڈرائی لیز پر لیے تھے۔ جبکہ 2015 میں مسلم لیگ نواز کی حکومت میں 12 اے 320 جہاز خرید چکے ہیں۔

’اب اگر لیزنگ کمپنی اتنا بڑا قدم اٹھا رہی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ دونوں فریقین کے درمیان معاملات نہیں سلجھ پارہے ہیں۔‘