یہ مسافر بردار طیارہ صرف 3 گھنٹوں میں اسلام آباد سے واشنگٹن پہنچ جائے گا!

سیاٹل:  امریکی کمپنی ’’ورجن گیلکٹک‘‘ نے دنیا کے تیز ترین مسافر بردار طیارے کا منصوبہ پیش کردیا ہے جو آواز سے 3 گنا تیز رفتار ہوگا یعنی یہ ایک گھنٹے میں 3600 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرسکے گا۔ اپنی آسانی کےلیے یوں سمجھ لیجیے کہ یہ طیارہ اسلام آباد سے واشنگٹن تک کا سفر صرف تین گھنٹوں میں مکمل کرلے گا۔ یہ مسافر بردار طیارہ جسے فی الحال کوئی نام نہیں دیا گیا ہے، 60,000 فٹ کی بلندی پر رہتے ہوئے پرواز کرسکے گا جبکہ اس میں 9 سے 19 تک مسافروں کی گنجائش ہوگی۔ موجودہ مسافر بردار طیارے 30 ہزار سے 40 ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کرتے ہیں۔ ورجن گیلکٹک نے اس منصوبے پر رولز رائس اور بوئنگ کارپوریشن جیسے بڑے اداروں کے ساتھ کام شروع کردیا ہے، تاہم یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ منصوبہ کب مکمل ہوگا اور ایسے ایک طیارے کی قیمت کیا ہوگی۔ بتاتے چلیں کہ رولز رائس کمپنی صرف مہنگی کاریں اور گاڑیاں ہی نہیں بناتی، بلکہ یہ عسکری اور پُرامن مقاصد کے طیاروں کےلیے انجن بھی تیار کرتی ہے جو خصوصی مہارت کا متقاضی کام ہے۔ واضح رہے کہ اس وقت دنیا میں جتنے بھی مسافر بردار طیارے ہیں وہ تمام کے تمام آواز سے کم رفتار یعنی ’’سب سونک‘‘ ہیں۔ انسانی تاریخ کا واحد سپر سونک (آواز سے تیز رفتار) مسافر بردار طیارہ ’’کونکارڈ‘‘ تھا جو 2003 میں ریٹائر کیا جاچکا ہے۔ ورجن گیلکٹک کا سپر سونک مسافر بردار طیارہ دراصل ایک ’’بزنس جیٹ‘‘ ہوگا جسے ارب پتی تاجروں اور مالدار لوگوں کےلیے بنایا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طیارے کا اندرون اس کے خریدار کی پسند اور ضرورت کے حساب سے ڈیزائن کیا جائے گا۔ اس وقت ایسے جیٹ انجن اور ایئرفریمز موجود ہیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے آواز سے تین گنا تیز رفتار بزنس جیٹ تیار کیا جاسکے۔ تاہم ورجن گیلکٹک کا ہدف ایسے مسافر بردار طیارے بنانا ہے جو ایک عام جیٹ کی طرح موجودہ ہوائی اڈوں سے پرواز کرنے اور اترنے کے قابل ہوں، اور انتہائی بلندی پر پہنچنے کے بعد اپنی تیز ترین رفتار کو پہنچیں۔ بہت زیادہ بلندی پر پرواز کرنے کی وجہ سے اگرچہ اس طیارے کے ساتھ سونک بُوم کا مسئلہ بہت کم ہوگا لیکن پھر بھی ہوا سے زبردست رگڑ کے باعث اس کا بیرونی ڈھانچہ بہت زیادہ گرم ہوجائے گا جبکہ تیز رفتار پرواز کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صدماتی موجیں (شاک ویوز) پورے طیارے میں شدید تھرتھراہٹ کو جنم دیں گی، جسے کم کرنا بلکہ مکمل طور پر ختم کرنا بھی اشد ضروری ہوگا۔ امید ہے کہ ان تمام چیلنجوں کے باوجود یہ طیارہ 2040 کے لگ بھگ دنیا کی فضاؤں میں محوِ پرواز ہوگا۔