انڈیا چین سرحدی تنازع: پاکستان پر بڑھ چڑھ کر بولنے والی انڈین فوج چین کے سامنے خاموش کیوں رہتی ہے؟

 

انڈیا کے سابق فوجی سربراہ بکرم سنگھ نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انڈین فوج چین کے ساتھ سرحد پر چینی فوج کو بھرپور جواب دی سکتی ہے اور اس کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت ہے لیکن اس طرح کی کارروائی کا فیصلہ فوج نہیں بلکہ سیاسی قیادت کرتی ہے۔

بی بی سی کے سوالوں کے جواب میں جنرل بکرم سنگھ نے کہا ’ہمیں اس حوالے سے محتاط رہنا ہوتا ہے کہ ہماری صلاحیت کیا ہے اور ہم کیا کر سکتے ہیں۔ ہمیں پتا ہے کہ کئی ایسے علاقے ہیں جہاں ہم چین کو اسی کی زبان میں جواب دی سکتے ہیں۔‘

’ہم کوئی بھی قدم اٹھاتے ہیں تو اس کے دیر پا اثرات کے بارے میں بھی سوچنا چاہیے۔ چین کے معاملے میں وزیر اعظم کے دفتر اور وزارت دفاع کو ہی فیصلہ لینا ہوتا ہے کیونکہ ایسی صورت میں تصادم میں اضافے کا پورا خدشہ ہوتا ہے۔‘

تاہم پاکستان کے ساتھ سرحد پر کشیدگی کی بات آتی ہے تو انڈین فوج کا انداز بالکل مختلف ہوتا ہے۔

جنرل بکرم سنگھ نے بتایا: ’پاکستان کے ساتھ کنٹرول لائن کا معاملہ بالکل الگ ہے ۔۔۔ یہاں گولہ باری عام بات ہے۔‘

’بالاکوٹ جیسی کوئی بڑی کارروائی کی بات ہو تب ہی فوج کو حکومت سے منظوری لینی پڑتی ہے ورنہ فوج یہاں خود ہی فیصلہ کرتی ہے۔ لیکن چین کے ساتھ معاملہ زیادہ نازک ہے۔‘

اس سال مئی سے چین اور انڈیا ککے درمیان ایل اے سی یعنی لائن آف ایکچوئل کنٹرول پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان کشیدگی کی خبریں آئی ہیں۔ پہلے تو دونوں ممالک پورے معاملے میں ایک دوسرے پر الزام لگاتے رہے لیکن بعد میں دونوں طرف سے رویے نرم ہوتے نظر آئے۔

انڈین فوجیتصویر کے کاپی رائٹAFP

سات جون کو انڈیا کی وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ ’چھ جون کو دونوں ممالک کے درمیان کمانڈر سطح کے مذاکرات ہوئے ہیں۔ بات چیت مثبت رہی اور دونوں ممالک کے درمیان سرحد پر جاری تنازع سے پرامن طریقے سے نمٹنے پر اتفاق رائے ہے۔‘

10 جون کو چین کی وزارت خارجہ نے کہا کہ دونون ملکوں کے درمیان سیاسی اور فوجی سطح پر مزاکرات چل رہے ہیں اور دونوں ممالک اس بات پر متفق ہیں کہ سرحد پر اس تنازع کو پرامن طریقے سے حل کیا جائے۔

’انڈیا کرنا چاہتا نہیں یا کرنے کی قابل نہیں‘

انڈیا کے سابق خارجہ سیکرٹری شیام سرن نے ہندوستان ٹائمز میں دو جون کو لکھا تھا کہ چین کے ساتھ سرحد پر لگاتار ایسی چیزیں ہو رہی ہیں جن کا انڈیا سامنا کر رہا ہے لیکن انڈین فوج چین کی طرف سے پیش قدمی کو روکنے کے لیے فوجی کارروائی یا تو کرنا نہیں چاہتی یا پھر اس کے پاس ایسا کرنے کی صلاحیت نہیں ہے۔

انھوں نے لکھا کہ ’ہمیں چین کی اس حکمتِ عملی کو سمجھنا ہو گا اور اسی کے حساب سے جواب دینا ہو گا۔

ایل اے سی کے بارے میں جو ابہام ہے اس کا ہمیں بھی فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے۔ تبھی ہم موجودہ ’سٹیٹس کو‘ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوں گے اور چین سے مذاکرات کر سکیں گے۔‘

حالانکہ جنرل بکرم سنگھ کی مطابق ’اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ ہم چاہتے کیا ہیں؟ جنگ؟ اگر ہاں، تو پھر ہمیں ایسی ہی منصوبہ بندی کرنی چاہیے لیکن جب ہمیں پتا ہے کہ ایسے معاملات پرامن طریقے سے حل کیے جا سکتے ہیں تو جیسے کو تیسے کی پالیسی کی ضرورت نہیں ہی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر چین اپنے فوجیوں کو واپس نہیں بلاتا اور کئی ماہ گزر جاتے ہیں تو پھر ہمیں کسے بڑے فیصلے کی ضرورت پڑے گی اور ہو سکتا ہے کہ ہمیں اسی زبان میں جواب دینا پڑے۔ لیکن ہمارا ابتدائی قدم ’جیسے کو تیسا‘ کی طرز پر نہیں ہو سکتا۔

’اگر ہم ایسا کرنا بھی چاہیں تو ہمیں وسائل کی ضرورت ہو گی۔ ہم جلدی اس ضرورت کو بھی پورا کر لیں گے لیکن ابھی ہم اس صورت حال میں نہیں پہنچ پائے۔‘

چین انڈیاتصویر کے کاپی رائٹAFP

چین کے ساتھ سرحد پر اکثر ایسی رکاوٹیں کیوں پیدا ہو جاتی ہیں؟

اس کے جواب میں جنرل سنگھ کہتے ہیں کہ ’جب میں مشرقی سرحد پر موجود فوجی دستوں کی قیادت کر رہا تھا تو اکثر سرحد پر چینی جارحیت کے بارے میں سنتے تھے۔ میں نے اپنی ٹیم سے پوچھا کہ متنازع علاقے میں کتنے گشتی یونٹ جاتے ہیں۔ مجھے پتا چلا کہ ہم ان کے مقابلے میں تین سے چار بار زیادہ گشت لگاتے ہیں۔

’ہم لوگ متنازع علاقوں میں جاتے تھے اور تصادم کی صورت میں معاہدوں کے ذریعے معاملہ حل کرتے تھے۔ چین تنازع کھڑا کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ ہم اسے پرامن طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سب کی بنیادی وجہ سرحد کے بارے میں جھگڑا ہے جو اب تک حل نہیں ہوا ہے۔ اس جھگڑے کو حل نہیں کیا گیا تو مستقبل میں بھی ایسی جھڑپیں ہوتی رہیں گی۔‘

اگر چینی فوج واقعی اندر گھس چکی ہے اور علاقے کے انفراسٹرکچر کے لیے خطرہ ہے تو کیا اس سے انڈیا کا نگرانی کرنے والا نظام یا سرویلینس سسٹم بھی متاثر ہو گا؟

اس کے جواب میں جنرل سنگھ کہتے ہیں ’نہیں، مجھے ایسا نہیں لگتا ہے۔ ہم زمین کا ہر انچ کوور نہیں کر سکتے۔ ہاں، ہم پیدل گشت کرتے ہیں اور سیٹیلائیٹ کے ذریعے بھی نگرانی کرتے ہیں لیکن آپ کو یہ سمجھنا ہوگا کہ ’ایل اے سے‘ ایل او سی سے بالکل الگ ہے۔ یہاں کافی کھلا علاقہ ہے۔ یہاں آمنے سامنے کی تعیناتی نہیں ہے جہاں ہماری فوج بہترین کام کر رہی ہے۔‘

کیا چین اور انڈیا کو نئے معاہدے کی ضرورت ہے؟

جنرل سنگھ کہتے ہیں کہ ’ سنہ 2013 میں سرحدی دفاع اور تعاون کا معاہدہ (بی ڈی سی ای) ہوا تھا۔ اس میں 1993 سے لے کر تب تک کی ساری باتیں شامل کی گئی تھیں۔ میں نے وہاں موجود رہ کر دیکھا ہے کہ یہ معاہدہ بااثر رہا ہے۔

’ادھر چین نے کئی باتوں پر اتفاق کرنے کے باوجود عمل نہیں کیا۔ چین کو اپنی طرف ہاٹ لائن بنانی تھی، جو نہیں بنائی۔ ایسی ہی اور بھی چیزیں ہیں۔ اگر اس معاہدے کو پوری طرح سے نافذ کر دیا جائے تو یہ اور بھی کارآمد ثابت ہو گا۔‘

چین اور انڈیا میں سے کون سرحد پر بھاری؟

جنرل سنگھ کہتے ہیں کہ ’سرحد پر انفراسٹرکچر کے لحاظ سے چین ہم سے بہت آگے ہے۔ کچھ سال پہلے تک چین بہت کم وقت میں اپنی فوج کے 22 ڈویژن جمع کر سکتا تھا۔ آج یہ تعداد 32 ہو گئی ہے۔ ایک ڈویژن میں 10 ہزار کے قریب فوجی ہوتے ہیں، جو فوری طور پر پوزیشن سنبھال سکتے ہیں۔ ہمیں بھی ان کی برابری کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم ضروری انفراسٹرکچر کا 75 فیصد کام پورا کر چکے ہیں اور باقی کو بھی جلد کرنے کی ضرورت ہے۔‘

اس علاقے کو سڑک اور ریل سے جوڑنے کی حکومت کی کوشش کو وہ کس طرح دیکھتے ہیں؟

چینی فوجیتصویر کے کاپی رائٹGETTY IMAGES

جنرل سنگھ کہتے ہیں کہ ’ہم نے سیاسی اعتبار سے اہم سڑک اور ریلوے لائن بنانے کا کام شروع کیا ہے۔ ان سے ہمیں اپنا دفاع کرنے اور حملہ کرنے، دونوں میں مدد ملے گی۔ بڑی بات یہ ہے کہ ہم نے ہوائی راستے سے اپنی فوج کے آنے جانے کی صلاحیت بڑھا دی ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران بنائے گئے سات لینڈنگ گراونڈز کو جدید بنیادوں پر بحال کیا گیا ہے۔

’ہیلی پیڈز، ساز و سامان اور ہماری سٹریٹیجک پوزیشن بھی مضبوط ہوئی ہے۔ ہم اس وقت اپنی تیاری سے مطمئن ہو سکتے ہیں لیکن اگلے پانچ چھ سالوں میں ہماری صورت حال مزید بہتر ہو جائے گی۔‘

19-2018 کی سالانہ رپورٹ میں انڈیا کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ حکومت نے انڈیا چین سرحد پر سڑک بنانے کے لیے 3812 کلومیٹر کے علاقے کی نشاندہی کی ہے۔

ان میں سے 3418 کلومیٹر سڑک بنانے کا کام بارڈر روڈ آرگنائزیشن بی آر او کو دیا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر منصوبے مکمل ہو چکے ہیں۔

جب ایل او سی پر پاکستان جنگ بندی کی خلاف ورزی کرتا ہے تو انڈین فوج میڈیا کو خبر کرتی ہے لیکن چین کے ساتھ جب سرحد پر مشکلات پیدا ہوتی ہیں تو فوج کی طرف سے کوئی بھی خبر حاصل کرنا اتنا مشکل کیوں ہو جاتا ہے؟

یہاں تک کہ پانچ جون کو انڈین فوج نے اپنے بیان میں چین کے ساتھ کشیدگی کے بارے میں میڈیا کو قیاس آرائیاں کرنے پر متنبہ کیا اور کہا کہ وہ بنا کسی حتمی اطلاع کے خبریں شائع نہ کریں۔

اس پر جنرل سنگھ کہتے ہیں ’ایسے حالات میں اس طرح کی احتیاط ضروری ہے۔ جب میں فوج کا سربراہ تھا تو ڈیپسانگ میں ایک مشکل پیدا ہو گئی تھی۔ میڈیا میں اس کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔

اس وقت چینی اہلکاروں نے کھل کر یہ شکایت کی کہ انڈین میڈیا کی کوریج اکسانے والی ہے اور اس سے صورت حال مزید خراب ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ جب دونوں ممالک چیزوں کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو پھر میڈیا بات کو کیوں بڑھا رہا ہے؟‘

لیکن یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی بھی اطلاع یا خبر ہی نہیں آئے گی تو کیا اس سے افواہوں اور غیر مصدقہ اطلاعات کو فروغ نہیں ملے گا؟

جنرل سنگھ کہتے ہیں کہ ’معلومات کو ضرورت کے حساب سے جاری کیا جانا چاہیے۔‘

چھ جون کو جب دونوں ملکوں کے درمیان کمانڈر سطح کی بات ہوئی تو کیا کوئی بیان جاری کیا گیا تھا؟

اس پر جنرل سنگھ کہتے ہیں، ’نہیں، اگر ہم سب کو سب کچھ بتا دیں گے تو اس سے لوگوں کا غصہ بے قابو ہو سکتا ہے۔ اس معاملے میں اعلیٰ سطح پر کوئی کنفیوژن نہیں رہتی ہے۔‘

چینی میں سرکاری میڈیا میں اکثر اکسانے والی کووریج ہوتی ہے۔ اس پر جنرل سنگھ کہتے ہیں کہ ہمارا میڈیا بھی اس کا جواب دیتا ہے۔

سرحد پر انڈین فوجیتصویر کے کاپی رائٹAFP

جنرل بکرم سنگھنیپال کے معاملے پر کیا کہتے ہیں؟

نو جون کو نیپال کے ایوان زیریں میں نئے سیاسی نقشے کو منظوری دے دی گئی۔ نیپال کے نئے نقشے میں کالا پانی، لیپولیکھ اور لمپیادھورا کو شامل کیا گیا ہے جو کہ پہلے سے ہی انڈیا کے نقشے میں ہیں۔

انڈیا نے نیپال کے اس اقدام کو رد کر دیا ہے اور کہا ہی کہ ان علاقوں پر کوئی تنازع نہیں ہے۔ اترا کھنڈ کے دھارچلا سے لیپولیکھ تک بنی سڑک پر نیپال کے اعتراض کے بارے میں موجودہ آرمی چیف جنرل منوج نرونے نے کہا تھا کہ نیپال کسی اور کے اشاروں پر کام کر رہا ہے۔

اس پر جنرل بکرم سنگھ نے کہا کہ ’میں اس پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا ہوں۔ انڈیا اور نیپال کے درمیان بہت ہی گہرا اور وسیع تعلق ہے۔ آج کی تاریخ میں ہماری فوج میں 32 ہزار گورکھا جوان ہیں۔ یہ سب نیپالی شہری ہیں۔

’یہ نقشے کا تنازع ہے جسے سفارتی اور سیاسی سطح پر حل کیا جائے گا۔ مجھے یہ نہیں پتا کہ انھوں نے کس بنیاد پر ایسا کہا ہے۔ وہ بہت ہی باصلاحیت افسر ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے پاس ایسا کہنے کی کوئی وجہ رہی ہو۔ مجھے نہیں پتا ہے اس لیے کوئی تبصرہ نہیں کروں گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایک فوجی ہونے کے ناطے میں محسوس کرتا ہوں کہ ہمیں خود کو فوجی معاملات تک ہی محدود رکھنا چاہیے۔ یہاں ضرور کچھ وجہ ہو گی تبھی فوج کے سربراہ نے ایسا کہا ہو گا۔‘

via bbc