بھارت نے بھوٹان اور نیپال کی سرحدوں پر اضافی دستے تعینات کردیئے

اتراکھنڈ، اروناچل پردیش، ہماچل پردیش، لداخ اور سکم میں بھی ریڈ الرٹ

نئی دہلی  بھارت نے لداخ میں چین کے ساتھ کشیدگی کے پیش نظر لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے علاوہ بھوٹان اور نیپال کی سرحدوں پر بھی اضافی دستے تعینات کردیئے ہیں . بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق وزارتِ داخلہ اور وزارت دفاع نے اعلیٰ سطحی اجلاس کے بعد بھارتی سرحدوں اضافی فوجی دستے تعینات کرنے اور متعین فورسز کو ریڈ الرٹ رہنے کی ہدایت کی ہے.سرحدوں پر ریڈ الرٹ جاری کرنے کے بعد بھارت کے سیکرٹری خارجہ ہرش وردھن شرنگلا اور آرمی چیف جنرل منوج مکند نرونے نے میانمار کا دورہ بھی موخر کر دیا ہے ‘تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت اور چین کے درمیان موجودہ کشیدگی طویل عرصے تک قائم رہ سکتی ہے. ذرائع کے مطابق انڈو تبتن بارڈر فورس (آئی ٹی بی پی) کو اتراکھنڈ، اروناچل پردیش، ہماچل پردیش، لداخ اور سکم میں الرٹ رہنے کی ہدایت کی گئی ہے، جبکہ نیپال اور بھوٹان کی سرحدوں کی حفاظت پر تعینات سشتر سیما بل (ایس ایس بی) کو بھی الرٹ کر دیا گیا ہے.نئی دہلی نے ان سرحدوں پر اضافی دستوں کو بھی تعینات کردیا ہے کہا جارہا ہے کہ بھارت خطے میں جنگی ماحول پیدا کررہا ہے تاہم پاکستان کے ساتھ بھارتی سرحدوں پر ابھی تک کوئی غیرمعمولی نقل وحرکت دیکھنے میں نہیں آئی تاہم لائن آف کنٹرول پر دونوں ملکوں کی فورسزکے درمیان جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں. مشرقی لداخ میں پینگانگ جھیل کے جنوبی کنارے پر چینی فوج کی مبینہ مداخلت کی کوشش ناکام بنانے کے بعد بھارتی فوج نے وہاں کی اسٹریٹجک اہمیت کی حامل متعدد چوٹیوں پر اپنی موجودگی بڑھا دی ہے جھیل کے آس پاس کے اہم مقامات پر اہل کاروں اور ہتھیاروں میں بھی اضافہ کر دیا ہے لداخ کے اس علاقے میں بھارت کو بری طرح شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا حتی کہ بھارتی فوجوں اپنی جوانوں کی لاشیں چھوڑکر علاقے سے بھاگ گئی تھیں جو چینی افواج کے واپس اپنی پوزیشنزپر جانے کے بعد اٹھائی گئیں.بھارت نے گزشتہ روزکہا تھا کہ اس نے چینی فوجیوں کے مبینہ اشتعال انگیز اور جارحانہ اقدامات کا معاملہ بیجنگ کے سامنے اٹھایا ہے اور اس سے کہا ہے کہ وہ اگلے مورچوں پر تعینات فوجیوں کو قابو میں رکھے بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق 31 اگست کو جب دونوں ممالک میں کمانڈر کی سطح پر مذاکرات ہو رہے تھے تو اس وقت بھی چینی فوجیوں نے یک طرفہ طور پر سرحد کو بدلنے کی کوشش کی جسے بھارتی فوج نے ناکام بنا دیا تھا جبکہ چین نے اس الزام کی تردید کی ہے اور بھارت پر جارحیت کا الزام عائد کیا ہے.بھارت میں چینی سفارت خانے کے ترجمان جی رونگ نے اپنے ایک بیان میں بھارت پر اشتعال انگیزی اور چین کی علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کا الزام عائد کرتے ہوئے نئی دہلی سے کہا ہے کہ وہ فوری طور پر اپنے ان فوجیوں کو واپس بلائے جنہوں نے غیر قانونی طریقے سے ایل اے سی عبور کی ہے انہوں نے کہا کہ بھارت اگلے مورچوں پر تعینات فوجیوں کو قابو میں رکھے اور ایسے اقدامات سے باز رہے جو صورتِ حال کو مزید پیچیدہ بنانے کا باعث بنیں.دوسری جانب چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے بھی کہا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان سرحد کی حد بندی نہ ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں تاہم بیجنگ سرحد پر امن و سلامتی کے قیام کے لیے پر عزم ہے. تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ابھی تک بھارت چین کے دباﺅ میں ہے اور خوفزدہ ہے‘مبصرین کے مطابق دونوں ممالک میں مذاکرات اس لیے ناکام ہو رہے ہیں کہ چین کا اصرار ہے کہ دونوں ملکوں کے فوجی برابر مسافت تک پیچھے جائیں، جبکہ بھارت کا خیال ہے کہ اگر ایسا کیا گیا تو اس سے بھارت کو نقصان ہو گا کیوں کہ بھارت کو اس علاقے سے پیچھے ہٹنا پڑے گا جس پر وہ اپنا ہونے کا دعوی کرتاہے تاہم چین نے اپنی فوجیں پیچھے ہٹا کر پیغام دیا ہے کہ وہ جنگ نہیں چاہتا.ادھرچینی امور کے بھارتی ماہر پروفیسر بلی رام کا کہنا ہے کہ 15 جون کو ہونے والا ٹکراﺅ، جس میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک ہوئے تھے جھیل کے شمالی کنارے پر ہوا تھا اور تازہ جھڑپ جنوبی کنارے پر ہوئی ہے جو آئندہ پیش آنے والے مزید واقعات کی جانب اشارہ ہے‘بلی رام نے کہا کہ بھارت نے جنوبی کنارے کی بلند چوٹیوں پر جو قبضہ کیا ہے وہ آگے چل کر ایک نیا تنازع بن سکتا ہے.ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہوا ہے وہ اس بات کا اشارہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ایسے مزید واقعات ہو سکتے ہیں دوسرے سیکٹرز میں بھی ایسا ہو سکتا ہے اور مزید مقامات متنازع بن سکتے ہیں. پروفیسر بلی رام نے کہا کہ چین کی تیاریوں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ چینی فوجیوں کا وہاں موسم سرما میں بھی جمے رہنے کا ارادہ ہے بھارت کو بھی اس کا اندازہ ہے اور اس لیے اس نے بھی تیاری کر لی ہے تاہم بھارتی فوج سازوسامان‘ٹیکنالوجی اور تربیت کے لحاظ سے چینی فوج کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے.انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک میں ابھی تک جو مذاکرات ہوئے ہیں وہ ناکام رہے ہیں۔لہٰذا یہ کہنا درست ہے کہ صورتِ حال سنگین ہے‘خیال رہے کہ بھارت کے چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت کہہ چکے ہیں کہ اگر مذاکرات ناکام رہتے ہیں تو فوجی کارروائی کا متبادل موجود ہے. ادھر غیرجانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ بھارت کو چین کے ساتھ جھڑپوں میں بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے جبکہ بھارت عالمی طاقتوں کی چین کے خلاف پراکسی وار کا ایندھن بن کر خود کو تباہ کرلے گا ‘ایڈیٹر”اردوپوائنٹ“میاں محمد ندیم نے کہا کہ مودی سرکار انتہاءپسندی میں اپنے ملک کو جس سطح پر لے آئی ہے اب بھارتی معاشرے کو ”نارملائزیشن“کی طرف لیجانے میں دہائیاں لگیں گے انہوں نے بی جے پی کے احمقانہ ایجنڈے نے پورے خطے کے امن کو خطرے میں ڈال دیا ہے.

انہوں نے کہا کہ افغانستان میں عالمی طاقتوں کی فوجی مدد نہ کرنے پر امریکا اور اتحادی نئی دہلی سے ناراض تھے جس کے ازالے کے لیے بھارت رضاکارانہ طور پرعالمی طاقتوں کی چین کے خلاف ”پراکسی وار “کا ہراول دستہ بن گیا ہے تاہم بھارتی فوج کا زیادہ دیر تک برف کے اس جہنم میں رک پانا ممکن نہیں انہوں نے کہا کہ موسم کی شدت بڑھنے کے ساتھ ساتھ بھارت کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور آخرکار بھارت کو یا تو چین کی بات مانتے ہوئے ان علاقوں کو سرنڈرکرنا ہوگا جن پر چین کا دعوی ہے یا پھر جنگ کا آپشن استعمال کرنا ہوگا.پاک بھارت سرحدوں کی صورتحال پر بات کرتے ہوئے میاں ندیم نے کہا کہ ابھی تک تو پاک بھارت سرحدوں پر کوئی غیرمعمولی نقل وحرکت نہیں تاہم دونوں ملکوں نے اپنی دفاعی تنصیبات مستقل طور پرسرحدوں کے قریب رکھی ہوئی ہیں دوسرا فیکٹر مشرقی پنجاب ہے بھارت کو علم ہے کہ پاکستان کی پنجاب یا سندھ کی طرف سے سرحدوں پر کسی چھوٹی سی چھیڑخانی سے بھی پنجاب میں بغاوت کا خدشہ ہے اور اس کے اثرات مقبوضہ کشمیر سمیت بھارت کے دیگر علاقوں پر پڑیں گے .