پاکستان میں کاروباری افراد بنکوں سے قرضے کیوں نہیں لے رہے

کراچی میں پورٹ قاسم کے صنعتی ایریا میں ایک گھی بنانے والی کمپنی کی جانب سے اپنے توسیعی منصوبے کے لیے خریدا گیا چار سے پانچ ایکڑ کا پلاٹ اج بھی خالی پڑا ہے۔

اس خالی پلاٹ پر سیڈ کرشنگ پلانٹ لگانے کا فیصلہ گھی کمپنی کے مالک کے قریب اس وقت قابل عمل نہیں رہا جب انھوں نے بنک سے قرض لے کر اسے سود سمیت واپس کرنے کے بارے میں جمع تفریق کی۔

گھی کمپنی کے مالک شیخ امجد رشید کے مطابق بنک سے بلند شرح سود پر قرضہ لے کر واپس لوٹانا موجودہ اقتصادی حالات میں بہت مشکل ہے۔

ان کے مطابق ورکنگ کیپٹل یعنی کاروباری سرمایہ بلند شرح سود پر بنک سے لینا اس لیے بھی قابل عمل نہیں رہا کہ ادھار پر اپنی مصنوعات دے کر رقم کی وصولی میں بہت مشکلات درپیش ہوتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں بنک کو سود سمیت قرض واپس کرنا مشکل تر ہو جاتا ہے۔

 

پاکستان کے معاشی حب کراچی کے ایک انڈسٹریل ایریا میں درآمدی کیمیکل سے چلنے والی پراسیسنگ فیکٹری میں کچھ عرصہ قبل پیداواری عمل روک دیا گیا۔ بلند شرح سود پر ملنے والے نجی بینکوں کے قرضے جب مہنگے ہوئے تو فیکٹری کے مالک نے بنک سے قرض لینا بند کر دیا۔

کیمیکل کی درآمد کے لیے ورکنگ کیپیٹل یعنی کاروباری سرمایے کی عدم دستیابی اور اس کے نتیجے میں کیمیکلز کی درآمد نہ ہونے کی وجہ سے درآمدی کیمیکلز سے چلنے والا پلانٹ بند ہو گیا ۔اگرچہ فیکٹری آج بھی چل رہی ہے اور مقامی طور پر دستیاب کیمیکلز کی پراسیسنگ کر رہی ہے تاہم درآمد ی کیمیکلز کا پلانٹ بند کر دیا گیا۔

سٹیٹ بنک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پرائیوٹ سیکٹر باروئنگ یعنی نجی شعبے کی جانب سے بنکوں سے لیے گئے قرضوں میں ستر فیصد تک کمی دیکھنے میں آئی ہے۔

پاکستان کے مرکزی بنک کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے سات ماہ یعنی جولائی سے جنوری کے عرصے میں نجی شعبے کی جانب سے بنکوں سے 179 ارب روپے کے قرضے لیے گئے جو گزشتہ مالی سال کے انھی مہنیوں میں 587 ارب کے لیے گئے قرضوں سے ستر فیصد کم ہے۔

سٹیٹ بنک آف پاکستان

نجی کاروبار بنکوں سے قرض لینے سے کیوں ہچکچا رہے ہیں؟

معاشی امور کے ماہر اور شرمان سیکورٹیز کے ہیڈ آف بزنس ڈویلپمنٹ فرحان محمود کا کہنا ہے کہ نجی شعبہ عموماً دو کاموں کے لیے بنکوں سے قرضہ لیتا ہے۔

ان کے مطابق نجی شعبہ اس قرض کو ورکنگ کیپٹیل یعنی کاروباری سرمایے کے طور پر استعمال کرتا ہے یا پھر اس قرضے کو اپنے توسیعی منصوبوں کے لیے استعمال کرتا ہے۔

فرحان محمود کے مطابق جب اسٹیٹ بنک کی جانب سے شرح سود بڑھایا گیا تو بنکوں نے بلند شرح سود پر نجی شعبے کو قرض دینا شروع کیا۔ بلند شرح سود پر قرضے کے حصول نے جب نجی شعبے کے لیے کاروباری سرمایے کو مہنگا کر دیا تو نجی شعبے کی جانب سے بنکوں سے لیے گئے قرضے میں کمی دیکھنے میں آئی۔

اسی طرح معیشت میں سست روی کی جانب سے نجی شعبہ نے اپنے توسیعی منصوبوں کو روک دیا ہے جو ان قرضوں میں کمی کی اہم وجہ ہے۔

فرحان محمود کے مطابق اگر نجی شعبہ بنکوں سے قرضہ نہیں لے رہا تو یہ ایک خراب معاشی صورت حال کی نشاندہی کر رہا ہے۔ نجی شعبے کی جانب سے قرضوں کی شرح میں کمی کے بعد بنکوں نے اگرچہ اس سرمایے کو حکومتی سیکورٹیز میں لگانا شروع کر دیا ہے تاہم یہ ملک کی مجموعی قومی معاشی صورت حال کے لیے کوئی حوصلہ افزا بات نہیں ہے۔

معاشی امور کے ماہر ثاقب شیرانی نے نجی شعبے کی جانب سے بنکوں سے لیے گئے قرضوں میں کمی کے رجحان کو ملک کی خراب معیشت سے جوڑا ہے۔ ان کے مطابق سنہ 2018 سے معیشت جس بحرانی کیفیت کا شکار ہے یہ اس کا نتیجہ ہے۔

دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی

کاروباری طبقے کا اعتماد اس وقت ایک غیر یقینی صورتحال کا شکار ہے، خاص کر غیر ملکی کرنسیوں کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نے کاروباری طبقے کے اعتماد کو بری طرح متاثر کیا۔

فیکٹری

ثاقب شیرانی کے مطابق بجلی اور گیس کی قمیتوں میں اضافے نے جہاں کاروبای لاگت کو بڑھایا تو بلند شرح سود نے نجی شعبے پر مزید بوجھ ڈال دیا۔ ان کے مطابق کاروباری لاگت میں شرح سود کے اضفے کی وجہ سے نجی شعبے کی جانب سے بنکوں سے قرضے لینے کے رجحان میں کمی آئی ہے۔

ثاقب شیرانی کا کہنا تھا کہ ملک کی مجموعی معاشی صورتحال کی وجہ سے نجی شعبے نے نئی سرمایہ کاری کے لیے ’دیکھو اور انتظار کرو‘ کی پالیسی اپنا لی ہے۔ ماہر معاشی امور نے اگلے چھ مہنیوں کو ملکی معیشت کے لیے بہت اہم قرار دیا ہے۔

معاشی امور پر نگاہ رکھنے والے افراد کے مطابق نجی شعبے کی جانب سے قرضے لینے کے رجحان میں کمی اور اس سے ایک عام آدمی کس طرح متاثر ہوتا ہے، سے بری صورتحال کی نشاندہی ہوتی ہے۔

بنکوں کا نفع، معیشت کا نقصان

اے کے ڈی سیکورٹیز میں ریسرچ کے ڈپٹی ہیڈ علی اصغر پونا والا کے مطابق دنیا بھر میں بنکوں کا منافع اور معیشت میں بڑھوتری ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس کے الٹ صورتحال ہے۔

پونا والا کے مطابق پاکستان میں بنکوں کے منافع میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن ملک کی معیشت میں اضافہ دیکھنے میں نہیں آرہا۔

ان کے مطابق اس کی ایک وجہ بنکوں کی جانب سے حکومتی سیکورٹیز میں سرمایہ کاری ہے تو اس کے ساتھ ساتھ نجی شعبے کی جانب سے قرضے لینے کے رجحان میں کمی ہے۔

پونا والا کے مطابق ملک کی معاشی ترقی اس وقت ممکن ہو گی جب نجی شعبے میں کاروباری پہیہ تیزتر ہو تاہم پاکستان میں اس وقت نجی شعبے میں کاروبار بحران کا شکار ہے جس کی وجہ سے صنعتی شعبے میں کام سست روی کا شکار ہے۔

’یہ صورتحال ایک بحرانی کیفیت پیدا کر رہی ہے۔ نجی شعبے ایک جانب کاروبار میں توسیع نہیں کر رہا ہے تو دوسری جانب اپنے کاروبار میں پیداواری لاگت میں کمی لانے کے لیے ملازمین کو نکال رہا ہے جو ملک میں بیروزگاری کی شرح میں اضافے کی وجہ بن رہی ہے۔‘

دنیا بھر میں نجی شعبے کو ’انجن آف گروتھ‘ کہا جاتا ہے جو کسی بھی معیشت کو ترقی دینے کے لیے ایک کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔

معاشی امور کے ماہرین کے مطابق پاکستان میں بنکوں کی جانب سے نجی شعبے کو دیے گئے قرضوں میں کمی کا رجحان ملکی معیشت کے لیے بہت تشویشناک ہے جس کی وجہ سے ملکی صنعتی شعبے میں مزید ابتر صورت حال پیدا ہو سکتی ہے جس کا ایک نتیجہ مزید بیروزگاری ہے۔

نجی قرضوں میں کمی بیروزگاری میں اضافے کا پیش خیمہ

نجی شعبے کی جانب سے بنکوں سے لیے گئے قرضوں کی شرح میں اس نمایاں کمی کو پاکستانی معیشت میں سست روی کے رجحان سے جوڑا جا رہا ہے جو حکومتی اور عالمی اداروں کے تخمینوں کے مطابق دو فیصد کے قریب شرح نمو میں اضافہ ریکارڈ کر پائے گی۔

فیکٹری

ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی میں کمی لانے کے لیے سپلائی چین میں بہتری کے لیے حکومتی اعلانات کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بنک نے شرح سود میں بھی اضافہ کیا ہے جو بنکوں کی جانب سے نجی شعبے کو دیے گئے قرضوں میں کمی کی ایک اہم وجہ قرار دی جاتی ہے۔

نجی شعبے کی جانب سے بنکوں کی جانب سے لیے گئے قرضوں اور ان میں رواں مالی سال میں نمایاں کمی کو معاشی امور کے ماہرین ملکی معیشت کی مجموعی صورت حال کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں جو ان کے تجزیوں کے مطابق اس وقت بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ شرح سود میں اس قدر اضافے سے معاشی شرح نمو میں کمی کاروبار اور صنعتوں کی بندش اور بیروزگاری کا باعث بنے گی۔ کراچی کے صنعتی علاقے میں بند ہونے والی صنعتیں اور کاروبار اس کی واضح مثال ہے۔

نجی قرضوں میں کمی اور سرکاری قرضوں میں اضافہ

نجی شعبے کی جانب سے بینکوں سے کم قرضہ لینے اور بینکوں کے پاس فاضل سرمایے کے بارے میں فرحان محمود کا کہنا تھا کہ بینک اس صورتحال میں زیادہ سرمایہ کاری حکومتی سیکیورٹیز میں کم کر رہے ہیں۔

ان کے مطابق آئی ایم ایف کی جانب سے سٹیٹ بنک سے قرضہ لینے کے بعد حکومت اب کمرشل بینکوں سے مالیاتی خسارہ کم کرنے کے رقم ادھار لے رہی ہے اور اس مدت میں جب نجی قرضوں میں ستر فیصد تک کمی دیکھی گئی۔

اے کے ڈی سیکورٹیز میں ریسرچ کے ڈپٹی ہیڈ علی اصغر پونا والا نے بتایا کہ حکومت نے بنکوں سے اس مالی سال کے جولائی سے دسمبر تک چھ ماہ میں گزشتہ سال کے اس عرصے میں پندرہ فیصد زیادہ قرض لیا۔ حکومتی سیکیورٹیز میں سرمایہ کاری بینکوں کے لیے اس لیے بھی سود مند ہے کہ یہ سرمایہ کاری رسک فری ہوتی ہے کیونکہ حکومت اس کی خود ضامن ہوتی ہے۔