ترکی کا شام میں آپریشن ’سپرنگ شیلڈ‘: صوبہ ادلب میں ترکی کے ڈرون حملوں میں ’19 شامی فوجی ہلاک‘

برطانیہ سے تعلق رکھنے والی تنظیم ‘سیرین ابزرویٹری فار ہیومن رائٹس’ کا کہنا ہے کہ ترکی کی جانب سے شام کے صوبہ ادلب میں کیے گئے تازہ ڈرون حملوں میں کم از کم 19 شامی فوجی ہلاک ہو گئے ہیں۔

تنظیم کے مطابق ان ڈرون حملوں میں ایک فوجی کانوائے اور ایک آرمی بیس کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ دوسری جانب شام نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کی افواج نے ترکی کے تین ڈرون مار گرائے ہیں۔

گذشتہ ہفتے شام میں ایک فضائی حملے کے دوران ترکی کے 33 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد ترکی نے شمالی شام میں اپنی عسکری کاروائیاں تیز کر دی ہیں۔

اس سے قبل اتوار کی شب ترکی نے دو شامی جنگی طیارے مار گرانے کا دعویٰ کیا تھا تاہم اطلاعات کے مطابق طیارے پر سوار پائلٹس پیراشوٹس کی مدد سے بحفاظت زمین پر اترنے میں کامیاب رہے۔

شام کے صوبہ ادلب میں ترکش فوجیوں کی شام کی سرکاری افواج اور باغیوں کے ساتھ جنگ جاری ہے۔

 

ترکی نے کہا ہے کہ فضائی اور زمینی حملوں میں ترک افواج نے شام کے فضائی دفاعی سسٹم اور درجنوں ٹینکس کو بھی نشانہ بنایا ہے۔

گذشتہ ہفتے 33 ترک فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے ادلب میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔ اس واقعے کے بعد سے خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ترکی اور شام کے بڑے اتحادی روس میں کشیدگی بڑے پیمانے پر بڑھے گی۔

اتوار کو ترکی کے وزیر دفاع ہولوسی اکبر نے کہا ہے کہ ترکی روس کے ساتھ محاذ آرائی نہیں چاہتا۔

وزیر دفاع نے ٹی وی پر نشر ہونے والے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ ‘ہم امید کرتے ہیں کہ روس (شام میں موجود) ترک افواج پر حملے روکے گا۔ روس کے ساتھ جھگڑا کرنے کی نہ تو ہماری نیت ہے اور نہ ہی خواہش۔’

ترک وزیر دفاع نے شام میں اپنے ملک کی حالیہ کارروائی کو ‘سپرنگ شیلڈ’ کا نام دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ اس کارروائی میں ایک شامی ڈرون، آٹھ ہیلی کاپٹر، 103 ٹینک، راکٹ لانچرز اور دیگر فوجی ساز و سامان تباہ کیا گیا ہے۔

ترکی

دوسری جانب جنگ پر نظر رکھنے والے ایک ادارے، سیرین ابزرویٹری فار ہیومن رائٹس، کا کہنا ہے کہ 27 فروری سے اب تک 74 شامی فوجی اور دمشق نواز جنگجو ہلاک ہوئے ہیں۔

شام میں کشیدہ حالات اور اس کے تناظر میں پیش آئے حالیہ واقعات نے ترکی اور روس کے تعلقات کو کشیدہ کیا ہے۔ آئندہ ہفتے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان کی روس کے صدر ولادیمیر پوتن کے ساتھ ملاقات متوقع ہے۔

شام کی جنگ پر گفتووشنید کرنے کے لیے یورپی یونین نے یورپی وزرائے خارجہ کی ایک ہنگامی میٹنگ بھی طلب کر رکھی ہے۔

جنگ کا پسِ منظر

شام کی سرکاری افواج، جنھیں روس کی حمایت حاصل ہے، ادلب کو جہادی گروپوں اور ترک نواز باغیوں کے قبضے سے چھڑانے کی کوشش کر رہی ہیں۔

ادلب شام کا آخری ایسا صوبہ ہے جہاں باغی گروہ اب تک قابض ہیں۔

ادلب میں جنگ میں تیزی آنے کے بعد سے اب تک دس لاکھ شامی افراد اپنے گھروں سے دربدر ہو چکے ہیں اور بیدخل ہونے والے یہ افراد بھاگ کر ترکی کی سرحد کے قریبی علاقوں میں مقیم ہیں اور ترکی میں داخل ہونا چاہتے ہیں۔ دوسری جانب ترکی کا کہنا ہے کہ وہ پہلے ہی لاکھوں شامی پناہ گزینوں کو پناہ دیے ہوئے ہے اور اب وہ مزید پناہ گزینوں کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتا۔

 شامی پناہ گزین

گذشتہ ہفتے ترک افواج پر بڑا حملہ اس وقت ہوا جب ترک نواز باغیوں نے ادلب کے مرکزی شہر سراقب پر کنٹرول حاصل کیا۔

شام میں جاری خانہ جنگی میں روس اور ترکی مخالف گروہوں کی اعانت کر رہے ہیں۔ ترکی صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف ہے اور شام میں باغی گروہوں کی سپورٹ کرتا ہے۔

ترکی اس جنگ میں اس وجہ سے الجھا ہے کیونکہ اس کی شام کے ساتھ ایک طویل سرحد ہے۔ ترکی شام کی موجودہ حکومت کے خلاف ہے اور شامی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں پناہ فراہم کر رہا ہے۔

پناہ گزینوں کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر ترکی نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ ہجرت کر کے آنے والے افراد کو یورپی یونین کے ممالک میں داخل ہونے کے دروازے وا کر دے گا۔