صوبے ہیرات میں فورسز کی کارروائی میں طالبان ہلاک ہوئے: افغان حکومت کی تصدیق

کابل: افغان حکومت نے فورسز کی فضائی کارروائی میں طالبان کی ہلاکت کی تصدیق کردی۔

افغان میڈیا کے مطابق قائم مقام وزیر دفاع اسد اللہ خالد نے بتایا کہ بدھ کے روز صوبے ہیرات میں کی گئی فضائی کارروائی میں 6 طالبان مارے گئے جو مقامی کمانڈر تھے۔

وزیر دفاع نے کہا کہ فضائی کارروائی میں طالبانوں کے مارے جانے کے ثبوت ویڈیو کے ساتھ میڈیا کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔

اسد اللہ خالد نے وزارت دفاع میں ملک کے نئے آرمی چیف جنرل یاسین ضیاء کے لیے منعقدہ تقریب میں بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت انٹرا افغان بات چیت کے لیے تیار ہے لیکن حکومت کی جانب سے طالبان قیدی رہا کیے جانے کے باوجود طالبان نے اب تک بات چیت شروع نہیں کی۔

قائم مقام وزیر دفاع نے کہا کہ ہمیں اطلاعات ہیں امریکا طالبان معاہدے کے نتیجے میں رہا کیے جانے والے کچھ طالبان قیدی واپس جنگ کی طرف لوٹ چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ امریکا طالبان معاہدے کے باوجود ہمارے دشمنوں نے حملے کم نہیں کیے ہیں بلکہ گزشتہ سال کے مقابلے میں انہوں نے حملوں میں اضافہ کیا ہے۔

دوسری جانب افغان میڈیا کے مطابق مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بدھ کے روز افغان فورسز نے شادی کی تقریب کو نشانہ بنایا جس میں 8 عام شہری بھی مارے گئے ہیں جب کہ 20 افراد زخمی ہوئے۔

افغان میڈیا کے مطابق عینی شاہدین اور حملے میں زخمی افراد کا بتانا ہےکہ جنگی طیاروں نے حملے کے بعد علاقے سے فرار ہونے والے افراد کو بھی نشانہ بنایا جب کہ حملے میں خواتین اور بچے بھی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔

زلمے خلیل زاد کی مذمت

امریکی نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے ہیرات میں افغان فورسز کے حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ 24 گھنٹے شدید تشدد زدہ رہے جس میں کئی جانیں ضائع ہوئیں۔

انہوں نے کہا کہ حملے کی تصاویر اور عینی شاہدین کے بیانات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حملے میں کئی عام شہریوں سمیت بچے بھی مارے گئے۔

زلمے خلیل زاد نے حملے کی تحقیقات کی بھی حمایت کا اعلان کیا۔

واضح رہے کہ امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کے بعد افغان حکومت اب تک 4250 طالبان قیدیوں کو رہا کرچکی ہے جب کہ طالبان نے 861 یرغمالیوں کو رہا کیا ہے، معاہدے کے تحت انٹرا افغان طالبان کے لیے افغان حکومت کو 5 ہزار طالبان قیدی رہا کرنے ہیں۔

امریکا طالبان امن معاہدہ

واضح رہے کہ امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ 29 فروری کو دوحہ میں طے پایا جس کے تحت 5 ہزار طالبان قیدیوں کی رہائی کےبدلے طالبان کو ایک ہزار قیدی رہا کرنے ہیں۔

معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلا آئندہ 14 ماہ کے دوران ہوگا جب کہ اس کے جواب میں طالبان کو ضمانت دینی ہے کہ افغان سرزمین القاعدہ سمیت دہشت گرد تنظیموں کے زیر استعمال نہیں آنے دیں گے۔

معاہدے کا اطلاق فوری طور پر ہوگا، 14 ماہ میں تمام امریکی اور نیٹو افواج کا افغانستان سے انخلاء ہوگا، ابتدائی 135 روز میں امریکا افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد 8600 تک کم کرے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی افواج کی تعداد بھی اسی تناسب سے کم کی جائے گی۔

معاہدے کے تحت قیدیوں کا تبادلہ بھی کیا جائے گا۔ 10 مارچ 2020 تک طالبان کے 5 ہزار قیدی اور افغان سیکیورٹی فورسز کے ایک ہزار اہلکاروں کو رہا کیا جائے گا اور اس کے فوراً بعد افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوں گے۔

معاہدے کے مطابق امریکا طالبان پر عائد پابندیاں ختم کرے گا اور اقوام متحدہ کی جانب سے طالبان رہنماؤں پر عائد پابندیاں ختم کرنے پر زور دے گا۔

معاہدے کے تحت افغان طالبان اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ افغان سرزمین امریکا اور اس کے اتحادیوں کیخلاف استعمال نہ ہو۔

via geo news