ایران امریکہ کشیدگی: امریکی صدور اور جنگوں کی مبہم قانونی حیثیت

ایران امریکہ کشیدگی: امریکی صدور اور جنگوں کی مبہم قانونی حیثیت

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے خلاف کارروائی اور بیانات سے ان کے نقادوں نے ان پر بین الاقوامی قانون توڑنے کا الزام عائد کیا ہے۔ لیکن وہ اس جنگ کے تماشے میں اس تنقید کو برداشت کرنے والے پہلے امریکی صدر نہیں ہیں۔

ایران کے ثقافتی مقامات پر حملہ کرنے کی صدر ٹرمپ کی دھمکی نے غم و غصے کو جنم دیا اور ان کی انتظامیہ کے حکام نے فوری طور پر اس بات کی تردید کی کہ ایسی کوئی تجویز زیر غور نہیں ہے۔

اس سے قبل انھوں نے ایران کے سب سے اہم جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کی اجازت دی تھی۔ بین الاقوامی قانون کے مطابق اگر کوئی حکومت اپنا دفاع کر رہی ہے تو اسی صورت میں وہ اس طرح کا حملہ کر سکتی ہے اور امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ وہ حملوں کو روکنے کی کوشش کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیے

’ایران نے حملہ کیا تو 52 ایرانی مقامات ہمارے نشانے پر ہیں‘

ایرانی جنرل کو مارنے کا فیصلہ ’جنگ روکنے‘ کے لیے کیا

امریکہ نے بنایا، امریکہ نے ’مروایا‘

لیکن ماورائے عدالت قتل پر اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ، ایگنس کالمارڈ نے ان کے جائزے سے اتفاق نہیں کیا۔ انھوں نے ٹویٹ کیا کہ ایسا نہیں لگتا کہ یہ ایک قانونی حملہ تھا کیونکہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں جو بیان کیا گیا ہے یہ حملہ اس سے مطابقت نہیں رکھتا۔

ٹرمپ نے جنگی جرائم کا الزام عائد کرنے والے امریکی فوجی اہلکاروں کو بھی اپنا گرویدہ کیا ہے، ان میں سے ایک سپیشل آپریشنز چیف ایڈورڈ گالاگھر کو ‘مشکل آدمی’ کہا تھا۔

امریکی صدر باراک اوباما
ٹرمپ فوجی جوانوں اور کارروائیوں کے بارے میں اس طرح بولتے ہیں جو قانونی حیثیت کو دھندلا دیتا ہے۔

ثقافتی املاک کے تحفظ کے 1954 ہیگ کنونشن کے تحت ثقافتی مقامات پر حملہ بین الاقوامی معاہدوں کی خلاف ورزی ہے، لیکن انھوں نے یہ کہتے ہوئے ثقافتی مقامات کو نشانہ بنانے سے متعلق اپنے مؤقف کا دفاع کیا کہ دشمن کے کمانڈر غیر قانونی طریقے استعمال کرتے ہیں اور امریکیوں کو بھی ایسا ہی کرنا چاہئے۔

انھوں نے نامہ نگاروں کو بتایا، ‘انھیں ہمارے لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنانے اور قتل کی اجازت ہے۔ اور ہمیں ان کے ثقافتی مقامات کو چھونے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ یہ اس طرح نہیں چل سکتا۔’

بین الاقوامی قانون کی برخاستگی کے ساتھ ہی انھوں نے اعلیٰ سطح کے امریکی عہدیداروں کو بھی حیرت میں ڈال دیا۔ امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا کہ ‘مجھے مکمل اعتماد ہے کہ صدر، کمانڈر ان چیف، ہمیں غیر قانونی حکم نہیں دیں گے۔’

ٹرمپ کے برسوں کے دور صدارت میں یہ ایک اور غیر معمولی لمحہ تھا جب ان کی اپنی ہی کابینہ کے ارکان کے ساتھ تنازعات عوامی سطح پر سامنے آئے۔

تاہم ، ڈونلڈ ٹرمپ پہلے صدر نہیں ہے جنھوں نے لوگوں کو اپنی شعلہ بیانی سے یا جارحانہ فوجی پالیسیوں کے استعمال سے حیران کیا۔

ان پالیسیوں پر تنازعات صدیوں سے گونج رہے ہیں، اور خود صدور کے ساتھ عوامی ناراضگی امریکی تاریخ کا حصہ رہی ہے۔

45 ویں صدر کے اقتدار سنبھالنے سے بہت پہلے ہی ریپبلکن اور ڈیموکریٹک رہنماؤں نے خفیہ طور پر فوجی اور انٹلیجنس کارروائیوں کی نگرانی کی تھی جس نے قانونی اور غیر قانونی کی بحث کو دھندلا دیا تھا۔

جارج ڈبلیو بش
ان میں سے متعدد امریکی صدور نے اپنی پالیسیوں کو جواز فراہم کرنے کی کوششوں میں ایک قانون، اتھارٹی فار ملٹری فورس (اے یو ایم ایف) کے استعمال کا اختیار کے لیے قانون سے متصادم ہوئے۔

اے یو ایم ایف کو ایسے افراد کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال کی اجازت دینے کے لیے بنایا کیا گیا تھا جنھوں نے 2001 کے دوران امریکہ کے خلاف حملے کرنے میں مدد کی تھی۔

تب سے امریکی صدور نے قانون کی وسیع پیمانے پر تشریح کی ہے اور اسے دنیا بھر کے مقامات پر فوجی کارروائیوں کے قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔

باراک اوباما نے خفیہ ڈرون حملوں کے استعمال کو بڑھایا اور اپنے دور صدارت کے دوران 540 سے زیادہ حملوں کی اجازت دی۔

ان کے مشیروں کا کہنا تھا کہ چونکہ ہدف ایسے انفرادی افراد ہیں جو امریکیوں کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔ لہذا ان کے خلاف فضائی حملے بین الاقوامی قانون کے مطابق ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اوباما پر ہونے والی تنقید ختم ہوگئی۔ ایک صدارتی مورخ، روٹجرز ڈیوڈ گرین برگ کا صدر کے فضائی حملوں کے استعمال پر کہنا ہے کہ ان کو ‘جنگ کی بدترین درندگیوں کو محدود کرنے کی کوشش کی طرف جانے والے راستہ’ کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

انسانی حقوق کے حامیوں نے کہا تھا کہ فضائی حملوں سے بین الاقوامی اور ملکی قانون کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔لیکن صدر اوباما نے فضائی حملوں کی قانونی بنیاد کا دفاع کیا۔

صدر باراک اوباما سے قبل امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے فضائی حملوں کے صرف ایک حصے پر دستخط کیے تھے۔ تاہم، صدر بش نے جنگ و جدل کو ایک اور طریقے سے آگے بڑھایا۔

انھوں نے تفتیش کے نام نہاد بہتر طریقے، واٹر بورڈنگ اور دیگر تدبیروں کے استعمال کو جائز قرار دیا جنھیں بڑے پیمانے پر تشدد کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔

ان کے معاملے میں، ان کے دور صدارت کے دوران سخت پالیسیوں کی وضاحت کی گئی تھی۔

تاریخ دان ڈیوڈ گرین برگ کا کہنا ہے کہ صدر بش کو عراق جنگ اور تشدد کے لیے یاد کیا جائے گا: ‘انھوں نے اس کی قیمت ادا کی ہے۔’

قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے قبل، صدر بل کلنٹن نے ماورائے عدالت فیصلوں کو ‘اپنایا’ اور دہشت گردی کے مشتبہ افراد کو ایسے ملک میں منتقل کیا جہاں قیدیوں پر تشدد کیا جاتا۔

کلنٹن اور دیگر صدور نے اپنی پالیسیوں کو قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش کی۔ دہائیوں پہلے، اینڈریو جیکسن، جنھوں نے 1800 کی دہائی کے اوائل میں صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔

جارج ایچ ڈبلیو بش
انھوں نے انڈین کو ہٹانے کے ایک قانون پر دستخط کیے تھے اور اس قانون کے ذریعے مقامی امریکیوں کو ملک سے دوری پر مجبور کردیا۔

گرین برگ کا کہنا ہے کہ لوگوں نے کہا کہ ان کو زبردستی امریکی سرزمین سے بے دخل کرنا ‘وحشیانہ’ ہے ۔ لیکن انھوں نے قانون کی پابندی کے بہانہ کا سہارا لیا تھا۔

مؤرخ کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو اپنی پالیسیاں اس طرح سے طے کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ ‘آپ صرف چارو نا چار ثقافتی مقامات پر ببماری ہی نہیں کرتے بلکہ وہ اقدار کو مضحکہ خیز بنانے پر بھی خوش ہوتے ہیں۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ان کی اپیل کا ایک طریقہ یہ ہے کہ وہ ان لوگوں کو مشتعل کرتے ہیں جو بین الاقوامی قانون کے زیادہ آزاد خیالات بیان کرتے ہیں۔

ٹرمپ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ان کی بیان بازی کے باوجود وہ سابقہ صدور کے مقابلے میں اپنی فوجی پالیسیوں کے حل میں زیادہ نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔

اینڈریو جیکسن، جنھوں نے 1800 کی دہائی کے اوائل میں امریکی صدر کی حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں
واشنگٹن میں قدامت پسند تھنک ٹینک ہیریٹیج فاؤنڈیشن کے تجزیہ کار جیمز کارافانو کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ محتاط رہے ہیں کہ انھوں نے فوج کے ساتھ جو کیا ہے وہ سب سے زیادہ قدامت پسند اور سب سے زیادہ سنجیدہ ہے۔

کچھ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ صدور کو بہت زیادہ طاقت دی جاتی ہے اور وہ چیزوں کو بہت دور لے جاتے ہیں۔

کوئنسی انسٹی ٹیوٹ کی خارجہ پالیسی تھنک ٹینک کے صدر، اینڈریو باسویچ کا کہنا ہے کہ ‘انھوں نے اپنے اختیار کو ایسے اعمال انجام دینے کے لیے استعمال کیا جن کو ہم غیر قانونی، غیر اخلاقی، ناجائز خیال کرتے ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ ‘مسئلہ صدر ٹرمپ کا نہیں ہے، مگر یہ کہ ہم نے صدارت کو باختیار کرنے میں اس پر دھیان نہیں دیا کہ کس کی اجازت دی جانی چاہئے۔’

جیسا کہ بیسویچ نے بتایا کہ تمام عمر کے صدور نے قانون کی حدود کو آگے بڑھایا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہے؟