امریکہ ایران کے ساتھ ‘سنجیدہ مذاکرات’ کے لیے تیار ہے: اقوامِ متحدہ کو امریکی خط

امریکہ ایران کے ساتھ 'سنجیدہ مذاکرات' کے لیے تیار ہے: اقوامِ متحدہ کو امریکی خط

مشرقِ وسطیٰ میں امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد امریکہ نے کہا ہے کہ وہ ایران سے ‘سنجیدگی کے ساتھ غیر مشروط مذاکرات کرنے کے لیے تیار ہے۔’

تین جنوری کو بغداد میں امریکی ڈرون حملے میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور جواب میں چھ جنوری کی رات ایران کی جانب سے عراق میں دو امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے۔

جنرل قاسم سلیمانی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایران کے روحانی رہنما آیت اللہ علی خامنہ ای کے بعد ملک کے دوسرے سب سے طاقتور ترین فرد تھے۔

ایران کے رہبر اعلی علی خامنہ ای نے ایران کی جانب سے کی گئی جوابی کارروائی کے بارے میں کہا کہ وہ ‘امریکہ کے منھ پر طمانچہ’ ہے اور ایران کا کہنا ہے کہ اس کے لیے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ امریکہ کے خطے میں موجودگی کے خاتمے کے سوا کچھ نہیں۔

یہ بھی پڑھیے
ایران کے امریکی اڈوں پر میزائل حملے اور امریکی ردعمل: کب کیا ہوا

امریکی صدور اور جنگوں کی مبہم قانونی حیثیت

’امریکہ نے ایک عفریت کو مار ڈالا‘: ڈونلڈ ٹرمپ

اقوام متحدہ کو لکھے گئے ایک خط میں امریکہ نے جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کرنے کے فیصلے کا دفاع کیا اور کہا امریکی خط میں کہا گیا ہے کہ جنرل سلیمانی کو قتل کرنے کی وجہ امریکہ کی جانب سے دفاعی اقدام تھا۔

امریکی ایوانِ نمائندگان میں بھی جمعرات کو اس قرارداد پر ووٹنگ بھی متوقع ہے جس کے تحت صدر ٹرمپ کو پابند کیا جائے گا کہ وہ کانگریس کی اجازت کے بغیر ایران کے خلاف مزید فوجی کارروائی نہیں کر سکتے۔

امریکی کانگریس کی سپیکر نینسی پلوسی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’کانگریس کے ارکان کو ٹرمپ انتظامیہ کے ایران کے خلاف عسکری اقدامات کرنے کے فیصلے اور مستقبل کے بارے میں کوئی حکمتِ عملی نہ ہونے پر فوری اور شدید خدشات ہیں۔‘

امریکی حملے میں ہلاک ہونے والوں میں جنرل سلیمانی کے علاوہ عراقی ملیشیا کے عہدیداران بھی تھے جس پر عراقی ملیشیا نے بھی امریکہ سے بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔

تاہم امریکی نائب صدر مائیک پینس نے امریکی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ‘انٹیلیجنس کی اطلاعات کے مطابق ایران نے اب ملیشیا کو امریکی اہداف کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے منع کیا ہے۔’
اقوام متحدہ کو لکھے گئے خط میں کیا ہے؟
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر کیلی کرافٹ کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ امریکہ امن مذاکرات کے لیے تیار ہے ‘جس کا مقصد ہے کہ بین الاقوامی امن و امان کو مزید نقصان نہ ہو اور ایرانی حکومت مزید جارحیت اختیار نہ کرے۔’

امریکہ نے نکتہ پیش کیا کہ اقوام متحدہ کی شق 51 کے تحت جنرل قاسم سلیمانی پر حملہ کرنا درست فیصلہ تھا۔ امریکہ نے مزید کہا کہ وہ مشرق وسطی میں اپنے اہلکاروں اور مفادات کے تحفظ کے لیے ‘ضرورت کے تحت مزید اقدام’ اٹھائیں گے۔

’ایران نے حملہ کیا تو 52 ایرانی مقامات ہمارے نشانے پر ہیں‘

جنرل سلیمانی امریکی حملے میں ہلاک، ایران ’بدلہ لے گا‘

ایرانی جنرل کو مارنے کا فیصلہ ’جنگ روکنے‘ کے لیے کیا

واضح رہے کہ شق 51 کے مطابق حملہ آور ملک پر لازم ہے کہ وہ سلامتی کونسل کو فوری طور پر خبر دے کہ انھوں نے اپنے دفاع میں یہ قدم اٹھایا ہے۔

دوسری جانب ایران نے بھی اقوام متحدہ کو اپنے حملے کی توجیہ پیش کرتے ہوئے شق 51 کا سہارا لیا ہے۔

اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر ماجد تخت روانچی نے لکھا کہ ‘ایران نہ کشیدگی میں اضافہ چاہتا ہے نہ جنگ’ لیکن اپنے دفاع کی خاطر ‘ایران نے عراق میں امریکی اڈے کو نشانہ بنا کر ایک مناسب اور خاطر خواہ جواب دیا ہے۔’

ایرانی سفیر نے لکھا: ‘آپریشن بہت احتیاط اور تیاری سے کیا گیا جس میں صرف امریکی دفاعی مفادات کو نشانہ بنایا گیا جس کی وجہ سے کسی قسم کا کوئی جانی یا مالی نقصان نہیں ہوا نہ کوئی شہری متاثر ہوا۔’

صدر ٹرمپ کا ایران حملوں پر ردعمل کیا تھا؟
امریکی صدر ماضی میں یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر ایران نے امریکی فوجیوں یا تنصیبات کو نشانہ بنایا تو وہ اس کے خلاف فوجی کارروائی کریں گے لیکن منگل کی شب امریکی اڈوں پر ایران حملوں کے باوجود بدھ کو اپنے خطاب میں انھوں نے ایسے کسی اقدام کا اعلان نہیں کیا اور کہا کہ ایرانی حملے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ان حملوں میں کوئی امریکی فوجی ہلاک یا زخمی نہیں ہوا صرف کچھ املاک کو معمولی سا نقصان ہوا ہے۔‘

صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’بظاہر ایران پیچھے ہٹ رہا ہے جو کہ فریقین کے لیے اچھی چیز ہے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘اگرچہ امریکہ کے پاس عظیم فوج اور ہتھیار ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم انہیں استعمال کریں، ہم انہیں استعمال نہیں کرنا چاہتے۔’

امریکی صدر نے ایران کو مخاطب کر کے کہا کہ ‘ایران کو اپنے جوہری عزائم اور دہشت گردوں کے لیے حمایت کو ختم کرنا ہو گا۔’

امریکی صدر کا یہ بھی کہنا تھا ‘امریکہ خود دنیا میں سب سے زیادہ تیل کی پیداوار والا ملک ہے۔ ہم مشرق وسطی کے تیل کے پیچھے نہیں ہیں۔ امریکہ اقتصادی اور فوجی طور پر مستحکم ہے۔ ‘

انھوں نے روس، چین، فرانس اور جرمنی سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کے ساتھ پرانا جوہری معاہدہ ختم کریں۔ ‘آپ حقیقت کو تسلیم کریں، ہمیں مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ ایک نئے معاہدے کے تحت ایران سے دنیا کو محفوظ کیا جا سکے۔ ‘

ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ امریکہ ایران پر مزید پابندیاں عائد کر رہا ہے اور وہ عہد کرتے ہیں کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار نہیں بنا سکے گا۔

ایران کے میزائل حملے میں کیا ہوا؟
ایران نے منگل کی شب عراق کے صوبے انبار اور اربیل میں امریکی اور اتحادی افواج کے اڈوں پر 35 میزائلوں سے نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا جبکہ امریکی وزیرِ دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ تین مختلف مقامات کو 16 میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔

ایران کے سرکاری میڈیا کا کہنا ہے کہ اس حملے کا نام ’آپریشن سلیمانی‘ رکھا گیا۔ ایرانی پاسداران انقلاب کا کہنا ہے کہ یہ حملے جمعے کو امریکی حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ تھا۔

ایران نے کن امریکی فوجی اڈوں کو نشانہ بنایا

ایرانی میزائل کہاں تک مار کر سکتے ہیں

عراقی وزیر اعظم عادل عبد المہدی نے بھی کہا کہ ان کے ملک کو تہران کی جانب سے سرکاری سطح پر جنرل قاسم سلیمانی کی موت کی انتقامی کارووائی شروع ہونے سے پہلے اس کے بارے میں آگاہ کر دیا گیا تھا۔

امریکی وزیرِ دفاع کے مطابق ایرانی میزائلوں میں سے 11 انبار میں الاسد کے فوجی اڈے پر گرے جبکہ ایک نے اربیل میں فوجی اڈے کو نشانہ بنایا۔

ان کے علاوہ کئی میزائل فوجی اڈوں کے نواحی علاقوں میں بھی گرے۔

امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے سربراہ مارک ملی کا کہنا ہے کہ ان کے خیال میں حملوں سے متنبہ کرنے والے نظام کی وجہ سے ان حملوں میں جانی نقصان نہیں ہوا۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’جو میں نے دیکھا ہے اور جو میں جانتا ہوں یہ حملے فوجیوں کو ہلاک کرنے کے لیے نہیں تنصیبات اور آلات ( گاڑیوں، آلات اور طیاروں) کو نقصان پہنچانے کے لیے تھے۔

عراقی فوج کا کہنا ہے کہ منگل کی شب مقامی وقت کے مطابق پونے دو بجے سے سوا دو بجے کے دوران ایران کی جانب سے 22 میزائل داغے گئے۔

عراقی فوج کی جوائنٹ آپریشن کمانڈ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق ان میں سے 17 کا ہدف الاسد کا فضائی اڈہ تھا۔ ان میں سے دو اڈے کے قریب حطان کے علاقے میں گرے مگر پھٹے نہیں۔

فوج کے مطابق ان کے علاوہ پانچ میزائل اربیل میں اتحادی افواج کے ہیڈکوارٹر کی جانب داغے گئے۔

عراق کے سرکاری ٹی وی کے مطابق دو ایرانی میزائل اربیل کے گاؤں سیدان میں گرے جبکہ ایک میزائل کا نشانہ دوہک میں بردہرشہ کا علاقہ بنا۔ سیدان اربیل شہر سے 16 کلومیٹر جبکہ بردہرشہ 47 کلومیٹر دور واقع ہے۔

عراقی افواج کے مطابق ان حملوں میں کوئی عراقی فوجی ہلاک نہیں ہوا جبکہ امریکی حکام نے بھی کسی فوجی کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کی ہے تاہم ایرانی میڈیا 80 سے زیادہ افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کر رہا ہے۔

حملوں کے بعد ایران نے کیا کہا؟
حملوں کے فوراً بعد ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ‘ایران نے اقوام متحدہ کے چارٹر 51 کے تحت اپنے دفاع میں مناسب اقدامات اٹھاتے ہوئے اس فضائی اڈے کو نشانہ بنایا ہے جہاں سے ہمارے شہریوں اور اعلیٰ حکام کے خلاف بزدلانہ مسلح حملے کیے جاتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم کشیدگی یا جنگ کے خواہاں نہیں ہیں، لیکن کسی بھی جارحیت کے خلاف اپنا دفاع کریں گے۔’

بدھ کو ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں ان حملوں کو امریکہ کے چہرے پر طمانچہ قرار دیا اور کہا کہ ایران دنیا کے داداگیروں کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔

علی خامنہ ای نے یہ بھی کہا کہ ‘جب بات محاذ آرائی کی آتی ہے تو اس قسم کی فوجی کارروائی کافی نہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ (خطے میں) امریکہ کی موجودگی کا خاتمہ ہونا چاہیے۔’

ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے خبردار کیا کہ امریکہ کے ساتھ سمجھوتہ ایران سے اس کی دشمنی ختم نہیں کرے گا۔ ‘یہ بہت بڑی غلطی ہے اور واضح غلطی ہے کہ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم ایک قدم پیچھے ہٹیں اور کچھ پسپائی اختیار کریں تو امریکہ دشمنی ختم کر دے گا۔ دشمنی ان کی فطرت میں ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ایران کو ہر شعبے میں مضبوط ہونے کی ضرورت ہے تاکہ ‘دشمن ہمیں نشانہ نہ بنا سکے۔’

ایران کے صدر حسن روحانی نے اپنے خطاب میں امریکہ کو مخاطب کر کے کہا کہ ایران جنرل سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ خطے سے امریکہ کو نکال کر لے گا۔ ان کا کہنا تھا ‘تم نے جنرل سلیمانی کا ہاتھ ان کے جسم سے قطع کیا۔ اب اس خطے سے تمہارے قدم اکھاڑ دیے جائیں گے۔’

انھوں نے یہ بھی کہا کہ عراق میں دو امریکی فوجی اڈوں پر ‘میزائل حملے ظاہر کرتے ہیں کہ ایران امریکہ کے سامنے پسپائی اختیار نہیں کرے گا۔’

ایران کے ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والی ایک تقریر میں صدر روحانی نے کہا کہ ‘اگر امریکہ نے ایک جرم کرتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسے اس کا بھرپور جواب ملے گا۔’

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ایرانی صدر نے کہا کہ ‘اگر ان میں ذرا سی عقل ہو گی تو وہ اس موقعے پر کوئی مزید اقدام نہیں کریں گے۔’