بڑھاپے میں بے خوابی کی سائنسی وجہ سامنے آگئی

اسٹینفرڈ: ہم جانتے ہیں کہ عمر کے ساتھ ساتھ بزرگوں کی نیند کم ہوجاتی ہے۔ اس کی سائنسی وجہ بیان کرتے ہوئے ماہرین نے کہا ہے کہ بڑھاپے میں ہمیں ہیدار کرنے والے دماغی خلیات (عصبئے) غیرمعمولی طور پر سرگرم ہوجاتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر بزرگوں کی نیند اتنی متاثر کیوں ہوتی ہے؟ سائنسدانوں کے مطابق 65 برس سے زائد عمر کے مردوزن کی 50 فیصد تعداد بے خوابی اور نیند میں کمی کی شکایت کرتی ہے۔

اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے پروفیسر لوئس دی لیسیا کے مطابق اگر عمررسیدہ افراد میں الزائیمر یا دیگر دماغی عارضے ہوں تو ان کی 80 فیصد تعداد شدید بے خوابی کی شکار ہوجاتی ہیں۔ پھر واضح رہے کہ نیند کی کمی مزید کئی دماغی عارضوں کو بھی جنم دیتی ہے۔

تجربہ گاہ میں جوان اور بوڑھے چوہوں کے دماغ میں ان نیورون کا مشاہدہ کیا گیا جو ایک مشہور مقام ہپوتھیلیمس سے خارج ہوکر’ہائپوکریٹن‘ نامی پروٹین بنارہے تھے۔ یہ پروٹین انسان کو بیدار کرنے یا رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور چوہوں میں بھی یہی کام کرتے ہیں۔

پہلے خیال تھا کہ شاید دماغی اندرونی برقی نظام، یا سرکٹ کسی طرح بری نیند کی وجہ بنتا ہے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ ہائپوکریٹن عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتے ہوتے 80 فیصد ہی باقی رہ جاتے ہیں۔ لیکن اصل وجہ کچھ اور نکلی وہ یہ کہ بوڑھے چوہوں میں ہائپوکریٹن کے فائر یا سرگرم ہونے کی شرح بڑھ جاتی ہے۔ چونکہ یہ بیداری کی وجہ بنتے ہیں اور یوں بوڑھے لوگ نیند کی کمی کی بجائے جگانے والے پروٹین کی زائد سرگرمی سے جاگتے رہتے ہیں۔

اگرچہ چوہوں کے ماڈل انسان کی برابری نہیں کرسکتے لیکن اس کی کچھ تعبیر ضرور کی جاسکتی ہے۔ اب شاید بوڑھے انسان بھی ہائپوکریٹن کی زائد سرگرمی سے بسترپرکروٹ بدلتے رہتے ہیں اور نیند کوسوں دور ہوتی ہے۔

تاہم جامعہ ایڈنبرا میں نیند اوردماغ کے ماہر ریناٹا ریہا نے اس تحقیق کو بہت اہم قرار دیتے ہوئے معمے کا حل قرار دیا ہے۔ تاہم پروفیسر لوئس کے مطابق یہ ہمارے سوال کا نصف جواب ہوا اور اب ہم دیکھیں گے کہ بوڑھے افراد میں نیند کا محرک بننے والا نظام کیا ہے اور کیسے کام کرتا ہے۔