غیر مشروط معا فی نامہ

وکلا رہنما علی احمد کرد نے نظام عدل کی تما م خرابیوں کا ذمے دار جج اور جسٹس صاحبان کو قرار دیا ہے، فرماتے ہیں جو لوگ صبح آٹھ بجے پیشی کے لیے حاضر ہوتے ہیں اور تین چار بجے اپنے دل پر اگلی پیشی کا زخم لے کر جاتے ہیں تو ان کا دل اس ظلم پر خون کے آنسو بہاتا ہے عدلیہ کی اس ستم گری نے میں ملک و قوم کو دنیا بھر میں رسوا کردیا ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر بات کی جائے۔ کرد صاحب آپ ہماری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بتائیں کہ عدالتیں کس حد تک انصاف کی فراہمی کے بجائے سائلین کو ذہنی اذیت کا باعث بنتی ہیں اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ انصاف کی راہ میں قانون کی مو شگافیوں کے پہاڑ کھڑے کرتا ہے سائلین پر پیشی در پیشی کے کوڑے کون برساتا ہے اور اس مکروہ کھیل میں ان کی پشت پناہی کون کرتا ہے؟ اگر آپ دیانت داری سے سوچیں گے تو اس کا ذمے دار عدلیہ کو نہیں وکلا اور بار کونسل کو قرار دیں گے۔
کچھ عرصہ قبل بھاولپور کی سول کورٹ کے جج نے مدعی کے وکیل سے کہا آپ جس کیس کی پیروی کرنے آئے ہیں کیا وہ قابل سماعت ہے؟ کیوں عدالت کا وقت ضائع کرنا چاہتے ہیں! بہتر ہوگا آپ اپنا کیس واپس لے لیں فاضل وکیل نے کہا آپ کا کام سماعت کے بعد یہ فیصلہ کرنا ہے کہ مقدمہ قابل اخراج ہے یا ناقابل سماعت ہے وکیل کے تیور دیکھ کر جج صاحب نے پیشی دے دی۔
ہم نے جج صاحب سے استفسار کیا جب مقدمہ قابل سماعت ہی نہیں تو آپ نے پیشی کیوں دی؟ جج صاحب کا جواب بڑا حیران کن اور ان کی بے بسی کا مظہر تھا کہنے لگے اگر میں سماعت سے انکار کرتا تو وکلا میری عدالت میں پیش ہونے سے انکار کردیتے ہیں اور بار کونسل میرے تبادلے کا مطالبہ کرتی اور کوئی بھی مقدمہ میری عدالت میں نہ آتا میں اپنا بوریا بستر اٹھائے ایک شہر سے دوسرے شہر دھکے کھاتا پھرتا ہم نے پوچھا کیا جعلی مقدمے کی سماعت سے انکار آپ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا؟ جج صاحب نے جواب دیا قانونی طور پر میں کسی جعلی مقدمے کو پہلی ہی پیشی پر خارج کر سکتا ہوں مگر ایسا کرنا مظلوم سائل پر مزید ظلم ہوگا کیوں کہ مدعی کا وکیل سیشن کورٹ میں اپیل دائر کر دے گا اور تاخیری حربوں سے مقدمہ کو کئی سال تک لٹکائے رکھے گا اور بالآخر ایک دن سیشن جج مقدمہ واپس سول کورٹ کو ریفر کردے گا قانون کے مطابق کام کرنا خود کو پریشانیوں میں ڈالنا ہے اور کوئی بھی باشعور جج اپنے آپ کو بارکونسل اور وکلا کے زیر عتاب آنا پسند نہیں کرتے۔
کرد صاحب آپ کے بقول عدلیہ کی آزادی اور اس کی حرمت و توقیر کی بحالی کے لیے سڑکوں پر دھکے کھائے ہیں مگر یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ آپ نے گرتی ہوئی دیوار کو دھکا دینے کے بجائے کندھا دیا ہے چیف جسٹس چودھری افتخار کو مسند انصاف پر بٹھانے کے بجائے انہیں خواہش کے گھوڑے پہ سوار کردیا وہ اتنے با اختیا ہوگئے ہر صاحب اختیار شخصیت کو بے عزت کرنے لگے، کرد صاحب اگر آپ عوام کو انصاف دلانے کے لیے سڑکوں پر نکلتے تو نظام عدل پر انگلی اٹھانے کے بجائے اپنی جانب اٹھی چار انگلیوں پر توجہ دیتے ذرا سوچیے اگر آپ جسٹس ہوں اور آپ کی میز پر ڈیڑھ دوسو فائلیں پڑی ہوں تو آپ پیشی دینے کے سوا کیا کرسکتے ہیں، آپ نظام عدل کو بہتر بنانے کے لیے سڑکوں پر نکلتے تو قوم آپ کی ممنون ہوتی اور آپ تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن جاتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا کیوں کہ آپ بھی اس نظام کا حصہ ہیں آپ پیشی در پیشی کے ابلیسی چکر سے قوم کو نکالنے کے لیے سڑکوں پر نکلتے تو قوم آپ کو سر پر بیٹھا لیتی آپ ان کے سر کا تاج بن جاتے مگر آپ کبھی نہیں چاہتے کہ قوم کو جلد ازجلد انصاف ملے
اگر آپ وکلا کی ججوں سے بد کلامی اور مار پیٹ کے خلاف سینہ سپر ہو جاتے تو عزت مآب بن جاتے آپ کی توقیر و حرمت ملک کی توقیر و حرمت بن جاتی مگر آپ بار کونسل اور وکلا کے خلاف احتجاج کر کے اپنی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ کرد صاحب اگر آپ ہائی کورٹ کے جسٹس صاحبان کے لیفٹ اوور کا ہتھوڑا برسانے پر احتجاج کرتے تو قوم آپ کے نام کا دم بھرتی آپ کو اس حقیقت کا ادراک یقینا ہو گا کہ لیفٹ اوور کاہتھوڑا جب برستا ہے تو عدلیہ کی زمین سے کرپشن کا پودا پھوٹتا ہے المیہ یہ بھی ہے کہ جسٹس صاحبان کو اس سے کوئی سروکار نہیں، کرد صاحب کیا آپ نے کبھی لیفٹ اوور کے کے ہتھوڑے کے بارے میں سوچنے کی زحمت فرمائی ہے آپنے کبھی اس کے خلاف احتجاج کیا ہے، پیشی در پیشی کا ابلیسی چکر جعلی مقدمات کی سماعت اور عدم ثبوت کی بنیاد پر خارج ہونے والے مقدمات جج اور جسٹس صاحبان کے غیر قانونی فیصلوں پر آپ نے کبھی احتجاج کیا ہے، کبھی نہیں، کیونکہ عدلیہ سے ان مکروہات کا خاتمہ ہو جائے تو انصاف کی فراہمی یقینی اور فوری ہونے کا امکان معرض وجود میں آتا ہے، وکلا اور بار کونسل کی رونقیں ماند پڑنے کے امکانات بھی روشن ہو سکتے ہیں، کرد صاحب اگر نظام عدل کو بہتر بنانا چاہتے ہیں، عدلیہ کو خودمختار اور باتوقیر دیکھنا چاہتے ہیں تو ہم نے جن خرابیوں کا ذکر کیا ہے ان پر احتجاج کیجیے اور یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہنا چاہیے جب تک خرابیوں کا سد باب نہیں ہو جاتا آخر میں ہم کرد صاحب سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ ہماری کوئی بات ان کی طبع نازک پر گراں گزری ہو تو معاف فرما دیں، ہم یہ معافی غیر مشروط طور پر طلب کرنے کی جسارت کررہے ہیں۔
٭٭٭٭٭