بارانی علاقے بارانِ رحمت اور برفانی طوفان

پاکستان کا تمام پہاڑی و نیم پہاڑی خطہ اور کچھ میدانی حصہ بھی بارانی علاقہ کہلاتا ہے۔ بارانی اِن معنوں میں کہ اِن تمام علاقوں میں زراعت کا تمام تر انحصار بارش پر ہے۔ کسان زمین میں ہل چلا کر بیج تو بو دیتا ہے لیکن اس بیج کے بار آور ہونے کا انحصار بارش پر ہوتا ہے۔ کسان زمین میں بوائی کرکے آسمان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھنے لگتا ہے۔ بعض اوقات اس کے انتظار کی گھڑیاں طول کھینچ جاتی ہیں تو اس کے اندر مایوسی اور اضطراب کی کیفیت پیدا ہونے لگتی ہے۔ ایسے میں فرمایا گیا ہے کہ لاتفظومن رحمتہ اللہ۔ اللہ کی رحمت سے مایوس مت ہو کہ مایوسی گناہ ہے اور گناہ آدمی کا حوصلہ پست کردیتا ہے۔ چناں چہ قدرت کسان کے حوصلے کو زیادہ نہیں آزماتی اور اسے مکمل مایوس ہونے سے پہلے ہی باران رحمت سے نواز دیتی ہے۔ ملک کی سب سے بڑی فصل گندم کی ہے، اس کی بوائی نومبر کے اوائل میں ہوتی ہے، اس وقت زمین میں اتنی نمی ہوتی ہے کہ فصل آسانی سے کاشت ہوجاتی ہے اور چند دنوں بعد زمین سے گندم کے ننھے ننھے پودے بھی سر نکال لیتے ہیں لیکن پھر انہیں بڑھوتری کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے، وہ سر اٹھائے آسمان کی طرف تکنے لگتے ہیں۔ کسان بھی ان معصوم پودوں کی دعائوں میں شامل ہوجاتا ہے وہ اپنے رب کے حضور گڑگڑاتا ہے اور بارانِ رحمت کے لیے دعائیں کرتا ہے۔ بالآخر اس کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں اور آسمان سے بارانِ رحمت کا نزول شروع ہوجاتا ہے۔
اب کی دفعہ نومبر میں ایک دو چھینٹے پڑے لیکن دسمبر خشک گزرا۔ گندم کے پودے مرجھانے لگے اور کسانوں کے چہرے بھی مایوسی کی زد میں آنے لگے کہ جنوری رحمت کا پیغام لے کر آگیا۔ محکمہ موسمیات نے خبر دی کہ جنوری کے پہلے ہفتے میں لگاتار بارشیں ہوں گی اور پہاڑوں پر برف پڑے گی۔ اس خبر سے کسانوں میں مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ 4 جنوری کو بادل گھر کر آئے اور گھٹا برسنے لگی لیکن اس میں تیزی نہ تھی، شام تک بادل برس کر چھٹ بھی گئے۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ مطلع چھٹ جائے گا اور آسمان صاف ہوجائے گا۔ ایسے میں ہماری سات سالہ پوتی نے ہم سے کہا دادا آپ مسجد نماز پڑھنے جارہے ہیں وہاں اللہ میاں سے کہنا کہ وہ اور بارش برسائیں، تیز اور موسلادھار بارش، زمین ابھی پیاسی ہے ہم نے بچی کی یہ خواہش اپنے رب کے حضور پہنچادی۔ ظاہر ہے کسانوں نے بھی مزید بارش کی دعا کی ہوگی کہ زمین واقعی پیاسی تھی۔ محکمہ موسمیات نے بھی لگاتار کئی دنوں تک بارش کی پیش گوئی کی تھی لیکن اس پیش گوئی کا کیا اعتبار، ہوائیں کسی وقت بھی اپنا رخ بدل سکتی تھیں لیکن دعائیں رنگ لائیں، بادل پھر گھر کر آگئے اور راتوں رات گرج چمک کے ساتھ بارش برسنے لگی، پھر لگاتار تین دن تک اتنی بارش ہوئی کہ جل تھل ہوگیا، برساتی نالے اپنے کناروں سے بہہ نکلے، ندی نالوں میں طغیانی آگئی۔ یہ بارش ملک کے بیشتر علاقوں میں ہوئی جہاں نہری نظام موجود ہے اور جہاں ٹیوب ویل کے ذریعے آبپاشی ہوتی ہے وہ سب علاقے اس بارش سے فیضیاب ہوئے۔ رہے بارانی علاقے تو ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔ کسانوں کا کہنا تھا کہ اب اگر فصل کے پکنے تک مزید بارش نہ بھی ہو تو زمین میں اتنی نمی جذب ہوگئی ہے کہ فصل کو خوراک ملتی رہے گی۔ گندم کا دانہ موٹا ہوگا اور کسان کو اس کی محنت کا پورا پھل ملے گا۔
اس میں شبہ نہیں کہ پانی قدرت کی عظیم نعمت ہے۔ اس کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ کیا انسان کیا حیوان سب کے زندہ رہنے کا انحصار پانی پر ہے۔ کہتے ہیں کہ زمین کا ایک تہائی حصہ پانی پر اور صرف چوتھائی حصہ خشکی پر مشتمل ہے۔ یہ پانی سمندر کی شکل میں پوری زمین کو اپنے حصار میں لیے ہوئے ہے جو قومیں سمندر کے کنارے آباد ہیں وہ ان قوموں سے زیادہ ترقی یافتہ ہیں جو خشکی میں گھری ہوئی ہیں۔ بحری تجارت نے انسانی معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ جہاں تک بارش کا تعلق ہے تو اسے بلاشبہ بارانِ رحمت کہا جاسکتا ہے۔ بارش نہ ہو تو زمین کے اوپر سے زندگی کے آثار مٹ جائیں۔ قرآن نے بار بار بارش کا ذکر کیا ہے جس کے برسنے سے مردہ زمین جی اٹھتی ہے اور انواع و اقسام کے پھلوں، غذائی اجناس کی فصلوں اور خوشبودار پھولوں سے آدمی کا دامن بھر دیتی ہے۔ یہی بارش پہاڑوں پر برفباری کے ذریعے پانی کو گلیشیئرز کی صورت میں ذخیرہ کرنے کا خدائی نظام وضع کرتی ہے۔ گلیشیئرز پگھلتے ہیں تو دریائوں میں روانی آتی ہے اور انسان اس سے اپنے جینے کا سامان کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو بارش کا لاکھوں کروڑوں کیوسک پانی استعمال ہوئے بغیر ضائع ہوجاتا ہے۔ جو قومیں ہوشمند ہیں اور جن کے حکمران آنے والے حالات پر نظر رکھتے ہیں وہ خشک سالی کے دنوں میں اس پانی کو استعمال کرنے کے لیے اس کا ذخیرہ کرتے ہیں اور ڈیمز کی صورت میں اسے محفوظ رکھتے ہیں۔ افسوس پاکستان میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے جو بارش کھیتوں پر برستی ہے اس سے فصلوں کو تو فائدہ پہنچتا ہے لیکن آبی ذخائر نہ ہونے کے سبب بہت سا پانی ضائع ہوجاتا ہے۔ بہرکیف قدرت کی فیاضی میں کمی نہیں آتی وہ اپنے خزانے لٹاتی رہتی ہے۔
برفباری کا ذکر ہم پہلے کرچکے ہیں۔ بلاشبہ یہ بھی ایک رحمت ہے۔ برفباری ایک ایسا مسحور کن نظارہ ہے کہ اسے دیکھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کے لیے لوگ پہاڑوں کی جانب کھینچے چلے آتے ہیں۔ مری بھی ایک ایسا ہی ہل اسٹیشن ہے جہاں برفباری کے موقع پر لوگوں کا بڑا رش ہوتا ہے۔ چند روز پہلے وہاں جو المیہ رونما ہوا اور انسانی جانیں ضائع ہوئیں۔ اس کا بنیادی سبب بھی یہی رش تھا جسے کنٹرول کرنے کا انتظامیہ کی طرف سے کوئی بندوبست نہ تھا۔ حالاں کہ محکمہ موسمیات نے برفباری طوفان کا خطرہ ظاہر کردیا تھا جس سے نمٹنے کے لیے انتظامیہ کو خصوصی انتظامات کرنے چاہیے تھے اور سب سے اہم انتظام یہ ہوسکتا تھا کہ مری آنے والے لوگوں کو 5 کلو میٹر پہلے ہی سڑک پر بیریئر لگا کر روک دیا جاتا اور صرف ان گاڑیوں کو آگے جانے کی اجازت دی جاتی جن کے پاس ہوٹلوں اور ریسٹ ہائوسز کی بکنگ موجود ہوتی۔ انتظامیہ اس سلسلے میں خاموش تماشائی بنی رہی اور اس نے اپنی نااہلی سے قدرت کی رحمت کو زحمت بنادیا۔ جتنی بھی اموات ہوئیں، برف میں گھری ہوئی گاڑیوں میں ہوئیں، جن کے پاس آگے جانے یا پیچھے ہٹنے کا کوئی راستہ ہی نہ تھا۔ ہزاروں کی تعداد میں یہ گاڑیاں عام حالات میں بھی مری میں داخل نہیں ہوسکتی تھیں۔ انہیں مری سے باہر ہی برفانی طوفان نے گھیر لیا۔ اللہ تعالی مرحومین کی مغفرت فرمائیں۔