ہم کیوں مسلمان ہوئے

میرے قبولِ اسلام کے تقریبا ایک ماہ بعد مجھے اچانک اطلاع ملی کی پتا جی سخت علیل ہیں۔ اطلاع پاتے ہی میں ان کی خدمت میں پہنچ گیا۔ دراصل اسی بہانے میں ایک اور کوشش کرکے دیکھنا چاہتا تھا کہ کل قیامت کے دن مجھ پر یہ الزام نہ آئے کہ میں نے اتمامِ حجت نہ کی تھی۔ والد صاحب نے اشارے سے مجھے قریب بلا کر بیٹھنے کے لیے کہا۔ گزشتہ ایک مہینے ہی میں وہ کچھ سے کچھ ہو گئے تھے۔ مجھے توقع نہ تھی کہ میں انہیں اس خراب و خستہ حالت میں دیکھوں گا۔ انہیں اس درجہ بیمار دیکھ کر میرا دل بھر آیا اور وہ خود بھی آبدیدہ ہو گئے۔ میں نے سوچا کہ شاید اس آخری وقت ہی میں سہی وہ کوئی صحیح فیصلہ کر لیں اور جہنم کی آگ سے بچ جائیں۔ میں انکے قریب ہی چارپائی پر بیٹھ گیا اور وہ بڑی دیر تک آنکھیں بند کیے لیٹے رہے اور پھر جب انہوں نے آنکھیں کھول کر میری طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں عجیب سی حسرتیں کروٹ لے رہی تھیں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ مجھ سے بالکل مایوس ہو گئے تھے یا پھر ہنوز انہیں یہ توقع تھی کہ میں دین ِ آبائی کی طرف لوٹ آئوں گا۔ انہوں نے میرا ہاتھ اپنے سرد ہاتھوں میں لے لیا اور اسے ہلکے سے دبایا اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگے۔ غالبا وہ میرے عزائم کا جائزہ لے رہے تھے کہ یہ کس درجہ پختہ ہیں اور پھر شاید انہیں جلد ہی احساس ہو گیا کہ مجھ سے توقعات باندھنا فضول ہے۔
پتا جی! میں نے بھرائی ہوئی آواز میں انہیں مخاطب کیا کیا آپ ضمیر کی پوری طمانیت اور تسکین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ میں نے کوئی غلط اقدام کیا ہے؟
میری بات سن کر ان کے چہرے پر شدید اندرونی کرب و اضطراب اور کشمکش کے آثار ظاہر ہوئے جیسے وہ فیصلہ نہ کر پا رہے ہوں کہ انہیں کیا کہنا چاہیے۔ کچھ دیر ان پر تشنج کی سی کیفیت طاری رہی اور پھر ان کی مدھم سی آواز ابھری جیسے کیسے گہرے کنویں سے بول رہے ہوں۔
تمہارا فیصلہ شاید درست ہی ہے۔ میں سوچا حق کا اعتراف کرنا کتنا مشکل کام ہے سچ کو سچ کہنے کے لیے بھی لوگوں کو اپنے آپ پر کتنا جبر کرنا پڑتا ہے۔
پتا جی! پھر آپ حق کو حق جاننے کے باوجود اپنے موقف پر غور کیوں نہیں کرتے؟ میں نے پر سوز لہجے میں ان کے اندر کے خیر پسند انسان کو جگانے کی کوشش کی۔
بیٹے! انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے مزید کہچھ کہنے سے روک دیا تم میری مجبوری کو نہ سمجھ سکو گے۔ میں عمر بھر جس چیز کو حق کہتا رہا آج اسے باطل کہنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے اور پھر وہ بھی عمر کے اس مرحلے میں جب کہ چند سانسیں باقی رہ گئی ہوں؟ نہیں نہیں میں نہیں چاہتا کہ میری قوم میری موت کے بعد مجھ پر زبان دراز کرے۔ تم مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ میں اس اعمر میں تمہاری طرح کوئی انقلابی اقدام نہیں کرسکتا۔ تمہاری بات اور ہے تم نے ابھی کارزارِ حیات میں قدم رکھا ہے تمہاری توانائیاں اور صلاحیتیں تازہ ہیں تم چاہو تو اپنے ماحول سے تنہا ہونے کے باوجود ایک بھرپور ٹکر لے سکتے ہو۔
پتا جی کے پاس سے لوٹنے کے کچھ ہی دن بعد مجھے اچانک اطلاع ملی کہ ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ میں دل مسوس کر رہ گیا۔ مجھے ان کی موت کا اتنا رنج نہ تھا جتنا اس بات کا کہ وہ حالتِ کفر میں مرے تھے رنا تو سبھی کو ہے وہ آج نہ مرتے تو کل مرتے اس سے کیا فرق پڑ جاتا آج وہ کل ہماری باری ہے تمام نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن کتنا فرق ہوتا ہے اس موت میں جو حالتِ ایمان میں آئے اور اس موت میں جو حالتِ کفر میں آئے۔
بہرحال میں نے صبر کر لیا اور اپنے گھر گیا کہ کم از کم ان کا آخری دیدار کر لوں۔ مجھے دیکھتے ہی میرے ایک بھائی نے مجھ پر کلہاڑی اٹھائی کہ تمہیں بھی پتا جی کی ارتھی کے ساتھ جلا دیا جائے گا اس لیے کہ تمہاری ہی وجہ سے پتا جی نے صدمہ اٹھا کر جان دی ہے۔ پورے اہلِ خاندان اس بات پر مصر تھے کہ وہ مجھ مسلمان کو پتا جی کی ارتھی کے قریب بھی نہ جانے دیں گے چونکہ فتنہ پیدا ہونے کا اندیشہ تھا اور لوگ جذباتی ہو رہے تھے اس لیے میں پتا جی کی نعش دیکھے بغیر خاموشی سے واپس لوٹ آیا۔
لوگوں نے صبر تو کر لیا لیکن وہ مجھے بالکل میرے حال پر چھوڑ دینے کے لیے تیار نہ تھے اور نہ میں خود ایسا چاہتا تھا۔ مقصد اگر بحث برائے بحث نہ ہو تو باہمی تبادلہ خیال اور مختلف موضوعات پر آزادانہ گفتگو اکثر مفید نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ اس میں نہ صرف یہ کہ اپنے موقف کی صحیح وضاحت کا موقع ملتا ہے بلکہ اگر یہ کاوشیں مخلصانہ نہ ہوں تو مخاطب کو متاثر بھی کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ اب یوں ہونے لگا کہ انتہا پسندانہ طرزِ فکر رکھنے والے غیر مسلم نوجوان مختلف غیر مسلم مذہبی اور سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والے افراد جن میں سے اکثر میرے ہائی اسکول کے زمانے کے ساتھی تھے ان سے روزانہ کسی نہ کسی موضوع پر بحث و گفتگو ہوتی۔ یہ موضوعات عام طور پر وہی ہوتے جن سے متعلق غیر مسلم ذہن یا تو کسی شدید غلط فہمی کا شکار رہتا یا پھر ان کے نقطہ نظر کے مطابق اس میں کوئی بڑی قباحت موجود ہوتی ہے مثلا گوشت خوری جہاد پردہ تعداد ازدواج خاندانی منصوبہ بندی اورنگ زیب کا مندروں کو گرانا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ مبارک پر اعتراضات وغیرہ وغیرہ۔ جماعت اسلامی کے لٹریچر کے تفصیلی مطالعے نے الحمدللہ مجھے علمی ہتھیاروں سے لیس کر دیا تھا اور یہی وجہ تھی کہ میں ان تمام موضوعات پر سیر حاصل گفتگو بھی کرسکتا تھا اور مسائل کا سائینٹفک تجزیہ بھی کرکے دکھا سکتا تھا کہ اصل کیا ہے اور نقل کیا۔ جب ان دوستوں کے لیے کوئی راہِ فرار نہ رہ جاتی تو وہ یہ کہہ کر بات کو ختم کر دیتے کہ بحث میں تم سے جیتنا مشکل ہے (گویا علمی دلائل تو ان کے پاس موجود ہیں لیکن مجھ جیسے باتونی کے سامنے وہ زبان کھولنے کے حق میں نہیں) حالانکہ یہ محض عذرلنگ تھا۔ دراصل دلیل کے نام پر ان کے ہاں نری جذباتیت اوہام اور سینہ بہ سینہ قسم کی غلط سلط روایات کے سوا کچھ نہ تھا اور ہاں اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ ان میں سے بعض سلیم الفطرت نوجوان میرے یقین درد مندی اور مدلل علمی موقف سے اس درجہ متاثر ہو گئے تو انہوں نے تنہائی میں مجھ سے مل کر کہا کہ تمہیں گھبرانے کی ضرورت نہیں تم اپنے موقف پر مضبوطی سے قائم رہو آج سے ہم تمہاری طرف سے دفاع کریں گے۔
ایک موقع پر ایک غیر مسلم دوست نے بڑے پرسوز لہجے میں مجھ سے کہا کہ تم اسلام اسلام کی رٹ لگاتے ہو اس کے عدل و انصاف وغیرہ کا تذکرہ کرتے رہتے ہو لیکن ذرا دیکھو تو سہی کہ گائے جیسے مصوم بے ضرر اور نفع بخش جانور کے ساتھ مسلمان کیا سلوک کرتے ہیں اور پھر مسلمانوں کی شرارت تو دیکھو کہ وہ یہ جاننے کے باوجود کہ ہم اسے اپنی ماتا کہتے ہیں اور اسے دیوتا سمجھتے ہیں اسے ہمارے ہی سامنے کاٹ کر کھا جاتے ہیں۔ یہ بات اس نے بڑے جذباتی اور پر سوز لب و لہجے میں کہی تھی اور اس سے میں خود بھی متاثر ہو گیا تھا۔ میں فورا تو اسے کوئی جواب نہ دے سکا البتہ اتنا ضرور کہا کہ اس معاملے میں تم محض جذباتیت کا شکار ہو گئے ہو میں ان شا اللہ تمہاری تشفی کرا دوں گا۔ میری بات سن کر وہ اپنی کامیابی پر نازاں مسکراتا ہوا چلا گیا۔
اس کے جاتے ہی میں فورا ماسٹر صاحب کے پاس پہنچا اور انہیں صورتِ حال بتائی۔ ماسٹر صاحب میری گھبراہٹ اور تردد کو دیکھ کر مسکرائے اور انہوں نے کہا کہ اپنے دوست سے پہلے یہ پوچھو کہ کیا وہ اپنے پرکھوں کے نقش قدم پر چلنا باعثِ سعادت نہیں سمجھتا؟ اور پھر اسے یہ بتائو کہ ویدوں سے یہ بات ثابت ہے کہ دیوتائوں پر گائے بیل اور بھینسے ذبح کر کے بطور بھینٹ چڑھایا جاتا تھا بلکہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ لوگ اپنے معزز مہمانوں کی تواضع گائے کے نوعمر اور نو خیز بچھڑے سے کرتے تھے۔ اس سے کہو کہ سوامی وریکانند کہتے ہیں کہ (ویدک دور میں) وہ لوگ قربانی کی ایک چتا بناتے کچھ جانوروں کو ذبح کرتے اور ان کا گوشت سیخوں پر بھونتے اور یہ گوشت اندر دیوتائوں کے اوپر چڑھا دیتے۔
گاندھی جی اپنی کتاب ہندو دھرم صفحہ 19 پر لکھتے ہیں کہ جانوروں کی قربانی کا عمل ایک زمانے میں عام تھا۔ کیا آج ہم اسے ازسرِ نو زندہ کرنا چاہتے ہیں۔ ایک زمانے میں ہم گوشت کھاتے تھے کیا آج ہم ایسا کرنا چاہتے ہیں؟
مشہور مورخ ڈاکٹر تاراچند کہتے ہیں ویدک قربانیوں میں جانوروں کے چڑھاوے کی طرح پھل دودھ اور چاول کی روٹیاں شامل ہیں۔ بعد میں جانوروں کی قربانی مذہبی اعمال سے غائب ہوگئی۔ (ہندوستانی تہذیب پر اسلام کا اثر: ص: 3) پھر اس کے علاوہ یہ بھی ویدوں سے ثابت ہے کہ وہ مچھلی کے گوشت کو بطور غذا استعمال کرتے تھے۔ دراصل گائے کو تقدس حاصل ہونے کی وجہ یہ ہے کہ آرین زراعت پیشہ تھے اور اس کے ساتھ ہی گوشت خور بھی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ گوشت خوری کے نتیجے میں زراعت کے لیے جانور کم ہو رہے ہیں (اور ظاہر ہے کہ زراعت ہی ان کا اصل ذریعہ معاش تھا) تو انہوں نے جانوروں کا ذبیحہ بند کر دیا اور اسے ممنوع ٹھہرا دیا بالخصوص گائے کو اس لیے کہ بہترین زراعتی جانور بیل گائے ہی فراہم کرتی تھی۔ بعد میں یہ امتناع قانون اور تقدس کی شکل اختیار کر گیا۔ ہمارے ہندو بھائی اس سادی سی حقیقت پر غور کیے بغیر اس معاملے میں جذباتی ہو جاتے ہیں ورنہ خصوصیت نہ گائے کی ہے نہ کسی اور جانور کی۔ یہ سب انسان کی خدمت ہی کے لیے اللہ نے پیدا کیے ہیں۔چنانچہ دوسرے دن میں نے یہ سب باتیں اپنے دوست کے سامنے رکھیں وہ ہکا بکا سا رہ گیا۔ اسے کسی طرح اس بات کا یقین نہ آتا تھا کہ کسی زمانے میں دیوتائوں پر جانورں کا گوشت چڑھایا جاتا تھا۔ چنانچہ اس نے کہا کہ اگر پنڈت جی اس بات کی تصدیق کر دیں تو میں مان لوں گا۔ چنانچہ ہم پنڈت جی کے پاس گئے اور ان سے مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے کھا جانے والی نظروں سے مجھے گھورا اور گول مول سا جواب دیا کہ مجھے بھی نہیں معلوم۔ دیکھنا ہوگا ویدوں میں دیکھنا ہوگا۔ حالانکہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ ویدوں میں کیا لکھا ہے۔ میں خاموش ہوگیا۔
کتمانِ حق کی یہ روش کچھ نہیں ہے اور پھر پنڈت جی ہی کی کیا خصوصیت ہے خود مسلمانوں میں کتنے ہی نام نہاد ملا اور مولوی کیا ایسے نہیںجو جانتے بوجھتے مسلمانوں کو مختلف بدعتوں اور مشرکانہ آداب و رسوم میں محض اس وجہ سے مبتلا کیے ہوئے ہیں کہ اس سے ان کی دال روٹی چلتی ہے۔ مختصر یہ کہ اس اعلان سے پہلے بھی اس کے بعد بھی مجھے اس قسم کے کتنے ہی مناظروں اور مباحثوں میں الجھنا پڑا حق و باطل کی یہ کشمکش تو ظاہر ہے کہ بہت قدیم ہے پھر میرے معاملے ہی میں یہ سنت کیوں نہ پوری ہوتی۔