پی ایس او کی بہتر مگر مہنگے نرخ پر ایل این جی کی خریداری

اسلام آباد: پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) نے مائع قدرتی گیس (ایل این جی) کے لیے دیرینہ دوست سپلائر قطر پٹرولیم (کیو پی) سے رواں ماہ کے آخری ہفتے سپلائی کے لیے 15.93 ڈالر فی یونٹ (برینٹ کا 22.13 فیصد) کی بہتر پیشکش حاصل کرلی جو پہلے سے مگر اب بھی ملک میں ایل این جی کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔

تین دیگر بولیوں میں سے اس کا انتخاب کرتے ہوئے آمدنی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑی کمپنی اور سب سے بڑا ایندھن سپلائر، نے تصدیق کی کہ 29-30 اگست کے لیے ایل این جی اب تک کی سب سے مہنگی ہوگی۔

کمپنی کے ترجمان نے کہا کہ پی ایس او نے سب سے مہنگی ایل این جی فروری 2016 میں خریدی تھی جو برینٹ کا 18.93 فیصد تھی۔

تازہ حکومتی ہدایات کے بعد ایک غیر معمولی عوامی بیان میں کمپنی نے کہا کہ اس کے دوبارہ ٹینڈر کے لیے موصول ہونے والی بولی 15.9271 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو (ملین برٹش تھرمل یونٹ) میں ہے جو کہ موجودہ مارکیٹ ریٹ کے ساتھ مسابقت رکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ایس او نے قومی خزانے کو 2 ارب 10 کروڑ روپے بچائے اور پی ایس او نے کیو پی کو کارگو دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

موازنے کے لیے پاکستان ایل این جی لمیٹڈ (پی ایل ایل) جو کہ صرف ایک عوامی شعبے کا ایل این جی درآمد کنندہ ہے، نے پانچوں اسپاٹ کارگوز کی رواں ماہ کے لیے 10.52 ڈالر اور 10.83 ڈالر فی یونٹ کے درمیان بکنگ کی تھی۔

پاور سیکٹر کے ایک آپریٹر نے کہا کہ ایل این جی برینٹ کے 14 فیصد اور 16 فیصد پر فرنس آئل اور ہائی اسپیڈ ڈیزل کے مقابلے میں بجلی پیدا کرنے کے لیے مہنگی تھی۔

جب سوال کیا گیا کہ کیا پی ایس او نے تازہ ترین بولی کو قبول کرنے میں اس پہلو پر غور کیا ہے تو پی ایس او کے ترجمان نے کہا کہ ‘اگرچہ پی ایس او سالانہ ترقیاتی منصوبے (اے ڈی پی) کی بنیاد پر ایس این جی پی ایل کے خریدار کے طور پر کام کرتا ہے، اس کی مینجمنٹ کمیٹی نے پہلے ٹینڈر کو 20.055 ڈالر فی یونٹ پر بند کیا تھا جس سے 22 سے 23 روپے فی یونٹ بجلی پیدا ہوتی۔

اس طرح پی ایس او کی تازہ بولی پی ایل ایل سے تقریباً 2 ارب 20 کروڑ روپے زیادہ ہے حالانکہ پی ایس او اپنے منسوخ کیے گئے کارگو فی ایم ایم بی ٹی یو پر 2.1 ارب روپے کی بچت کا دعوٰی کررہا ہے۔

وزارت پیٹرولیم کے ایک سابق عہدیدار نے کہا کہ عجیب بات ہے کہ پی ایس او دراصل 16 ڈالر میں کارگو خریدنے کا جشن منا رہا ہے جو ایل این جی کے کاروبار میں پاکستان کے 7 سال کی سب سے زیادہ قیمت ہے۔

پی ایس او کے بولی کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ 29-30 اگست کو ایک ایل این جی کارگو کی ترسیل کے لیے 29 جولائی کو جاری ہونے والی ٹینڈر کی چار پیشکشیں اور ان میں سے ایک بولی کی تشخیص کے معیار کے مطابق نہیں تھی۔

تین دیگر کمپنیوں کی موصول ہونے والی بولیوں میں گنوور سنگاپور، وٹول اور کیو پی ٹریڈنگ نے اپنے کارگوز کو بالترتیب برینٹ کے 28.9876 فیصد، 24.0386 فیصد اور 22.1311 فیصد پر پیش کیا جو بالترتیب 20.88 ڈالر، 17.33 ڈالر اور 15.9271 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو بنتا ہے۔

اس کے مقابلے میں کمپنی نے کہا کہ فرنس آئل پر بجلی 19-20 روپے فی یونٹ میں پیدا ہوتی۔

کہا گیا کہ ‘ج کے ٹینڈر پر بجلی کی پیداواری لاگت 14-15 روپے فی یونٹ ہوگی’، ڈیزل پر بجلی کی پیداواری لاگت 25-27 روپے فی کلو واٹ ہوتی ہے جو فرنس آئل سے بھی زیادہ ہے۔

دوسری جانب نیپرا کے مطابق ایچ ایس ڈی اور فرنس آئل پر فیول کی قیمت گزشتہ ماہ بالترتیب 20 روپے اور 14.5 روپے فی یونٹ تھی۔

سوال کیا گیا کہ کہ ایل این جی کے کاروبار کے بانی ہونے کے باوجود ترسیل سے 30 دن پہلے ٹینڈر کیوں دیا جا رہا ہے تو پی ایس او نے کہا کہ اس نے اسپاٹ کارگو باقاعدگی سے نہیں خریدا اور یہ اس سال ہماری تیسری اسپاٹ خریداری ہے۔

اس نے کہا کہ پی ایس او صرف اسپاٹ خریداری کے لیے جا سکتا ہے جیسا کہ اے ڈی پی میں ایس این جی پی ایل سے اتفاق ہوا تھا اور اگست کے لیے نیا کارگو اے ڈی پی کا حصہ نہیں ہے۔