مسعود خان کا ایک اور امتحان ، ناراض امریکا کو منا پائیں گے؟

پاک امریکن تعلقات جس نہج پر پہنچ چکے اس کا اندازہ ان سفارتی حوالوں سے لگایا جا سکتا ہے کہ، امریکا کی نئی انتظامیہ کو اقتدار میں آئے ایک سال سے زیادہ عرصہ ہونے کو ہے۔ جوبائبڈن، عمران ملاقات ہوئی نہ بات چیت۔ 20 سال بعد افغانستان خالی کرتے ہوئے بھی امریکیوں نے خطہ کے اہم ملک اور پرانے اتحادی پاکستان کی قیادت یا حکومت کو اعتماد میں لینا ضروری نہیں سمجھا۔ کسی اعلی عہدیدار نے ابھی تک پاکستان کا سرکاری دورہ بھی نہیں کیا سوائے نائب سیکریٹری خارجہ برائے جنوبی ایشیائ ۔ جو افغانستان کی شکست کے بعد اوسان بحالی کی خاطر خطے کے دورے کے دوران گزرتے ہوئے پاکستانی قیادت سے بھی ” ٹاٹا” کرتی گئی۔ البتہ حال ہی میں اسلام آباد میں ہونے والے ٹرائیکاپلس اجلاس میں امریکی نمائندے برائے افغانستان کی شرکت سے برف پگھلنے کی طرف اشارہ ملتا ہے لیکن واضح طور پر کہا نہیں جا سکتا کہ موسم بہار شروع ہو چکا۔ 20سال تک افغانستان پر قبضے کے دوران جنگ کے لیے پاکستان کی زمینی اور فضائی حدود استعمال کرنے کے باوجود امریکا کبھی پاکستان سے خوش نہیں رہا۔ بھارت سے قربت اور پاکستان سے ڈومور کا مطالبہ تسلسل سے کرتا رہا۔ یہ ڈومور کیا تھا امریکا کو خود بھی معلوم نہیں، لیکن اس کا گمان تھا کہ پاکستان چاہے تو طالبان کو لا کر اس کے قدموں میں ڈال سکتا ہے۔ یہی امریکا کی حسرت رہی، اسی خواہش پر 20 سال تک دم نکلتا رہا۔ حدف کل پورا ہوتا ہے یا پرسوں گھربوں ڈالر خرچ اور 20 سال کی طویل جنگ کے دوران طالبان امریکا کے قابو میں نہیں آئے۔ بلآخر شکست سے دوچار ہی ہونا پڑھا اور جس انداز میں افغانستان خالی ہوا وہ اور بھی زیادہ شرمندگی کا باعث بنا۔ امریکا کو اس جگ ہنسائی کی شکایت پاکستان کے عدم تعاون سے ہے۔ شکوہ شکایت اپنی جگہ لیکن پاکستان کے لیے امریکا گلے میں پھنسی ہڈی ہے جسے نہ نگل سکتا ہے نہ اگل سکتا ہے۔اصولوں پر ڈٹ جانا تو درست ہے مگر پاکستان کے لیے یہ ممکن نہیں کہ امریکا سے مکمل جان چھڑانے کے بعد زندگی آسان ہو جائے۔ چین کا معاشی قوت اور سپر پاور بننے کے باوجود بھی دنیا کی معیشت اور مالیاتی اداروں کی نگرانی امریکا کے پاس ہی ہے۔ مستقبل بعید میں ایسا نہیں لگ رہا کہ یہ کنٹرول چین یا کسی دوسری قوت کے پاس آ جائے گا۔ امریکا چین کے ساتھ بھی تعلقات گرم سرد رکھنے چاہتا ہے، ایک طرف دھمکی آمیز لہجہ کہ چین نے تائیوان پر فوج کشی کی تو امریکا اور اتحادی کارروائی کریں گے، دوسری طرف امریکی وزارت خارجہ کا ترجمان کہتا ہے کہ جہاں دونوں ممالک کے مفاد مشترک ہوں کہ ،مشترکہ کارروائی ہو گی۔ پیر کو دونوں ممالک کے صدور کی ورچول ملاقات کا بھی شیڈول ہے۔ پھر ہم اپنے مفادات کے مند نظر خارجہ پالیسی کیوں مرتب نہیں کر سکتے یہ ہماری فوری ضرورت ہے۔ سی پیک کا دوسرا فیز مکمل ہونے والا ہے۔ پاکستان میں ابھی تک انقلابی معاشی ترقی دیکھنے میں نہیں آئی، جس کا شور سی پیک کے اجرائ سے قبل سننے میں آیا تھا۔ سوائے اس کے کہ کچھ سفری آسانیاں پیدا ہوئی ہیں لیکن اس کا آغاز تو نواز شریف نے کئی عشرے قبل موٹروے کی صورت میں کر دیا تھا۔ نواز شریف کی حکومت نہ سہی پالیسی ہی جاری رہتی تو آج پاکستان میں سڑکوں کا نٹ ورک بہت مضبوط ہوتا۔لہذا موجودہ صورت حال کو دیکھتے ہوئے قطعی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ آئندہ پچاس سال میں بھی پاکستان معاشی طور پر مضبوط اور متحرک ملک بن سکتا ہے۔ متحدد عرب عمارت، سعودی عرب سمیت پاکستان کی معاشی اور مالی مدد کرنے اور قرض دینے والے تمام ممالک اور ادارے امریکا کے زیر اثر ہیں۔ایسی صورت میں امریکا کے ساتھ سرد جنگ ہو یا ناراضگی پاکستان کیسے متحمل ہو سکتا ہے۔ والڈ بنک اور امریکا کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی نعرے بازی کی حقیقت تو عمران خان کے اقتدار میں آنے کے بعد کھل گئی کہ بغیر مالی امداد اور قرض کے ہم تو ڈالر میں استحکام بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ انہی وجوہات اور دباؤ کی بنا پر پاکستان کشمیر پالیسی میں بھی تبدیلی کرتا رہتا ہے کبھی نرم کبھی گرم۔ اندریں حالات کشمیر کے نامور اور بہادر سدھن قبیلے کے چشم و چراغ، ماہر سفارت کار اور دانشور سردار مسعود خان کو امریکا میں سفیر مقرر کر کے ان کو ایک اور امتحان میں ڈال دیا گیا۔ گو کہ ماضی میں توقعات اور امتحانات پر پورا اترنا ان کا وتیرا رہا ہے، بطور صدر ریاست ان کی خدمات اور خاص طور پر مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی برادری تک پہنچانے میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن میں اپنے پانچ سال پرانے موقف پر قائم ہوں کہ ریاست کے صدر کی کرسی ان کے لیے بے معنی تھی۔ امریکا میں بطور سفیر تعیناتی ان کے لیے بڑا اعزاز تو نہیں البتہ درست فیصلہ ہے، کہ اس وقت امریکا کے ساتھ سرد جنگ نہیں تعلقات کی بحالی کی ضرورت ہے۔ جو بہترین اور مدبرانہ سفارت کاری کے بغیر ممکن نہیں۔اس کے لیے، صحیح فرد کو صحیح ذمہ داری دی گئی ہے۔سردار مسعود خان کیریئر ڈپلومیٹ( پیشہ ور سفارت کار) ہیں، جو قبل ازیں دو مرتبہ نیویارک اور جنیوا، اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل نمائندے اور چین سمیت دنیا کے اہم ممالک میں خدمات انجام دے چکے۔ عالمی مسائل کو سفارت کاری سے حل کرنے کا ان کو بہت گہرا ادراک ہے۔ میری جب بھی ان سے ملاقات ہوئی ایک شفیق انسان اور مدبر پایا۔ ان کو ٹیبل پر بات چیت اجتماع سے خطاب اور موقع کی مناسبت سے دلال کے ساتھ مسائل پیش کرنے اور مد مقابل کو قائل کرنے پر ملکہ حاصل ہے۔ سردار مسعود خان پاکستان کے مسائل کو بھی باخوبی سمجھتے ہیں اور
پاکستان کے لیے امریکا کی ناگزیر ضرورت کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ بالا شبہ افغانستان سے امریکا کے انخلائ کے بعد کی صورت حال اور مقبوضہ
کشمیر کے عوام پر بھارتی مظالم کا نہ رکنے والا سلسلہ ہو یا تحریک آزادی کشمیر اور مسلم امہ کے مسائل، خطہ کی سیاسی صورت حال میں الجھے ہوئے جغرافیائی سیاسی منظر نامے تک۔۔ ایک تجربہ کار، روشن خیال اور وسیع المغز سفارت کار ہی اس چیلنجنگ ذمہ داری کو نبھا سکتا ہے۔ مسعود خان کے لیے یہ مشکل چیلنج ہو سکتا ہے نہ ممکن نہیں۔۔ وہ باصلاحیت بھی ہیں محنتی اور محب وطن بھی۔محبت، ذہانت اور محنت ایک جگہ ہو تو کوئی کام ناممکن نہیں ہو سکتا ۔ توقع قوی ہے کہ سردار مسعود خان بہترین سفارت کاری سے دوطرفہ تعلقات کو بہتر اور مضبوط بنانے کا حل نکالنے میں ضرور کامیاب ہوں گے۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی کی حکومت کا اب تک کے بہترین فیصلوں یہ سب سے بہترین ہے جو خالصتاً میرٹ پر کیا گیا ہے۔ جناب مسعود خان قومی جذبے سے سرشار مٹی کے سچے فرزند ہیں اور ان کے لیے عہدوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب ان کے ملک کے لیے خدمت کا مطالبہ کیا جائے تو وہ پھر اس میں پیچھے نہیں ہٹتے۔۔ خود غرض لوگ ہی اپنے آپ کو عہدوں تک محدود رکھتے ہیں۔ عقلمند لوگ ہمیشہ عاجز ہوتے ہیں اور چیلنجز کا سامنا کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے خواہ وہ کسی بڑے عہدے پر ہوں یا چھوٹے پر جہاں انہیں کہا جائے وہ خدمات انجام دیتے ہیں۔ مسعود خان بھی پاکستان کی خدمت کے لیے کمربستہ ہیں۔ ہم ان کی کامیابی کے خواہش مند اور دعا گو ہیں۔ انہوں نے چین میں بطور سفیر چین اور پاکستان کے درمیان عظیم تاریخی تعلقات کو مضبوط کرنے کے لیے پل کی بنیاد رکھی جسے آج سی پیک کہا جاتا ہے۔ امید ہے کہ ان کی تقرری سے امریکا اور پاکستان کے درمیان سرد سفارتی تعلقات میں گرم جوشی آئے گی اور سردار مسعود خان سفارتی تعلقات میں یہ گرم جوشی لانے میں کامیاب ہوں گے۔ انشاء اللہ۔
٭٭٭٭٭٭