اے پی ایس کے شہدا عدالت عظمی اور وزیر اعظم

اے پی ایس کے شہدا کے حوالے سے عدالت عظمی نے جو از خود نوٹس لیا تھا اس کی 10نومبر بروز بدھ سماعت تھی اٹارنی جنرل سے کچھ دیر سوال و جواب کے بعد چیف جسٹس نے تھوڑی دیر کے لیے سماعت ملتوی کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کو عدالت میں طلب کرلیا۔ 16دسمبر 2014کو آرمی پبلک اسکول پشاور میں دہشت گردوں نے پہلے خود کش حملہ کیا پھر فائرنگ کر کے اسکول کے طلبہ اور اسٹاف سمیت 147 افراد کو موت کی نیند سلا دیا، جس وقت یہ اندوہناک حادثہ ہوا اس وقت نواز شریف وزیر اعظم، چودھری نثار وزیر داخلہ، پرویز خٹک وزیر اعلی کے پی کے، راحیل شریف چیف آف آرمی اسٹاف، کور کمانڈر پشاور ہدایت الرحمن، ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام اور وفاقی سیکرٹری اختر علی شاہ تھے۔ آج کل چونکہ تحریک طالبان پاکستان سے حکومت کے مذاکرات چل رہے ہیں، اسی اثنا میں عدالت عظمی کے چیف جسٹس گلزار نے اے پی ایس سانحہ کے حوالے سے ازخود نوٹس لیا۔ عدالتی کارروائی کی تفصیل تو اخبارات میں شائع ہوئی ہیں۔
دراصل بچوں کے والدین کا اعتراض یہ ہے کہ ہم نے اپنے بچوں کو محفوظ علاقے میں پڑھنے کے بھیجا جو فوجی یا یوں کہہ لیں کہ چھائونی کا علاقہ ہے ہم سیکورٹی کی فیس بھی دیتے تھے ہمارے بچوں کو وہ سیکورٹی کیوں فراہم نہیں کی گئی جو ان کو دینا چاہیے تھا، اس میں وہ کچھ نام لیتے ہیں جن میں آرمی چیف۔ ڈی جی آئی ایس آئی اور دیگر کے بارے میں کہ ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ والدین کے مطالبات اور جذبات کو دیکھتے ہوئے 2018 میں اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جسٹس ابراہیم کی یک رکنی تحقیقاتی کمیٹی بنائی جسٹس ابراہیم نے بہت عرق ریزی اور محنت سے اس کیس کی انکوائری کی اس سلسلے میں وہ افغانستان بھی گئے پھر انہوں نے 525 صفحات کی اپنی رپورٹ پیش کی جو بعد میں عدالت کے کہنے پر شائع بھی کردی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس حملے کا ماسٹر مائنڈ مولوی فضل اللہ تھا اس میں 18افراد شامل تھے 12پاکستان سے اور 6افغانستان سے اس میں دو گروپ بنائے گئے ایک گروپ میں تین خود کش بمبار تھے دوسرے گروپ میں بھی کچھ خود کش بمبار تھے اور دیگر فائرنگ کرنے والے، رپورٹ میں اس سانحے میں دہشت گردوں کے سہولت کاروں کی بھی تفصیل ہے یہ سارے لوگ گرفتار ہیں ان میں کچھ کو سزائیں بھی دی جاچکی ہیں کچھ کو سزائے موت بھی ہوچکی ہے جب اس کی منصوبہ بندی کی گئی تو مجموعی طور پر 27افراد تھے جن میں سے نو مارے جاچکے تھے۔ اس طرح کے حملوں میں تین قسم کے افراد پکچر میں آتے ہیں ایک براہ راست حملہ آور افراد دوسرے ان کے سہولت کار تیسرے وہ ذمے داران جو سیکورٹی کے براہ راست ذمے دار ہیں، امریکا میں جب نائن الیون کا سانحہ ہوا جس میں چار ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے اس وقت بھی عام امریکی شہری صدر بش کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کررہے تھے لیکن صدر بش نے افغانستان پر حملہ کرکے امریکی عوام کے غصے کا رخ دوسری طرف موڑ دیا۔
عدالت عظمی نے اپنے 20اکتوبر کے فیصلے میں درج بالا تمام نام دے کر اٹارنی جنرل سے کہا تھا کہ آپ حکومت سے کہیں کہ بچوں کے والدین کا مطالبہ ہے کہ ہمیں انصاف چاہیے جو لوگ سیکورٹی کے ذمے دار ہیں ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔ 10نومبر کی سماعت کے دوران جب چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے پوچھا کہ آپ نے 20اکتوبر کا عدالت عظمی کا فیصلہ وزیر اعظم کو پہنچا دیا ہے اور آپ نے ان افراد کے خلاف کیا کارروائی کی جو ریٹائر ہو کر آرام سے اپنی زندگی انجوائے کررہے ہیں اٹارنی جنرل خالد جاوید نے جواب دیا کہ یہ فیصلہ وزیر اعظم کو پہنچا دوں گا اور یہ کہ جہاں تک کارروائی کا معاملہ ہے تو جسٹس ابراہیم کی 525صفحات کی رپورٹ میں جن جن افراد اور گروہوں کو اس سانحے کا مجرم قرار دیا گیا تھا ان سب کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جاچکا ہے۔ 20اکتوبر کے عدالت عظمی کے حکمنامے میں جن ذمے داران کے بارے میں کارروائی کا کہا گیا ہے ان کے بارے میں جسٹس ابراہیم کی رپورٹ خاموش ہے۔
وزیر اعظم جب عدالت میں پیش ہوئے جسٹس گلزار احمد نے پوچھا کہ عدالت عظمی کی 20اکتوبر کی رپورٹ آپ کو مل گئی ہے اور آپ نے اس پر کیا کارروائی کی وزیر اعظم نے جواب دیا کہ میں نے وہ فیصلہ دیکھ لیا ہے اور یہ کہ کوئی بھی مقدس گائے نہیں ہے آپ حکم دیں ان کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی جائے گی، چیف جسٹس نے کوئی واضح حکم تو نہیں دیا لیکن 12نومبر کے اخبارات میں چیف جسٹس گلزار احمد کا تحریری حکمنامہ جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ والدین سانحہ اے پی ایس میں اہم افراد کو ذمے دار سمجھتے ہیں عدالت نے 20اکتوبر کے حکمنامے کو ری پرڈیوس کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان نے عدالت میں پیش ہو کر کہا ہے کہ انہوں نے عدالت کے 20اکتوبر کے حکمنامے کا مطالعہ کیا ہے ریاست اور وفاقی حکومت اپنی ذمے داریوں سے مکمل طور پر واقف ہے اور غمزدہ والدین کی دادرسی کے لیے اس سانحے کے ذمے داروں اور اپنی ذمے داریاں نبھانے میں ناکام ہونے والے قانون کے مطابق ان کے منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گی حکمنامے کے مطابق حکومت غمزدہ والدین کا موقف سن کر لازمی طور پر اقدامات اٹھائے اور یہ ساری مشق چار ہفتوں میں مکمل کرکے آئندہ سماعت پر وزیر اعظم کے دستخطوں سے عملدرآمد رپورٹ عدالت میں پیش کی جائے۔ حکمنامے کے مطابق اٹارنی جنرل خالد جاوید نے بھی صاف صاف بیان دیا ہے کہ ریاست اور وفاقی حکومت اس قتل و غارت گری کے موقع پر اپنی ذمے داریاںادا نہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کو یقینی بنائے گی عدالت نے اپنے حکمنامے میں مزید قرار دیا ہے کہ شہید بچوں کے والدین اپنے بچوں کی اموات تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور وہ براہ راست ان افراد پر اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت ولا پروائی کا الزام لگا رہے ہیں جن کے نام عدالت عظمی کے 20اکتوبر کے حکمنامے میں لکھے ہوئے ہیں
٭٭٭٭٭٭٭٭٭