اسلامی ریاست قائدِاعظم کے عالی شان تصورات

1949 کی طرح آج بھی کچھ تجزیہ نگار یہ تاثر دیتے رہتے ہیں کہ قائدِاعظم برِصغیر میں ایک مسلم قومی ریاست قائم کرنے کے لئے کوشاں تھے، لیکن نوابزادہ لیاقت علی خان اور مولانا سید ابوالاعلی مودودی نے اسلامی ریاست کا نعرہ بلند کر کے بہت بڑا ذہنی خلجان پیدا کر دیا تھا جس کے باعث پاکستان پس ماندگی کا شکار ہوتا گیا۔ تاریخ کا دیانت دارانہ تجزیہ اِس الزام تراشی کی مکمل نفی کرتا ہے۔ 1937 کے انتخابات میں کانگریس کی عملا سات صوبوں میں حکومتیں قائم ہو گئی تھیں جن میں مسلمانوں کا مذہبی اور تہذیبی تشخص مٹانے اور انہیں معاشی طور پر مفلوج کر دینے کے لئے شاطرانہ اقدامات کیے گئے تھے جن کا پیرپور رِپورٹ میں تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اِس رپورٹ کے منظرِعام پر آنے سے مسلمانوں کے اندر اپنی بقا کے تحفظ کا زبردست داعیہ پیدا ہوا اور وہ آل انڈیا مسلم لیگ میں جوق در جوق شامل ہوتے گئے۔ مارچ 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سہ روزہ تاریخ ساز اِجلاس میں پورے ہندوستان سے ایک لاکھ مندوبین شریک ہوئے تھے۔ قائدِاعظم نے اپنے خطبہ صدارت میں واضح کیا تھا کہ ہم اقلیت نہیں بلکہ ایک قوم ہیں جسے اسلام نے ایک جداگانہ تہذیب و تمدن عطا کیا ہے۔ ہماری اپنی تاریخ ہے اور اپنا معاشرتی اور اخلاقی نظام ہے، اِس لئے ہمیں ایک ایسا خطہ چاہئے جس میں اسلام کی اعلی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔ درحقیقت تحریکِ پاکستان کے پس منظر میں علامہ اقبال کا یہ نظریہ کارفرما تھا کہ آج بھی اسلام ایک غالب تمدنی طاقت کے طور پر ابھرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
پاکستان وجود میں آ گیا، لیکن برہمن قیادت اس کے مستقبل کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں پھیلاتی رہی۔ وہ متواتر پروپیگنڈہ کر رہی تھی کہ یہ نیا ملک صرف چھ ماہ قائم رہ سکے گا، کیونکہ وہاں سخت گیر ملاوں کی حکومت ہو گی جو اقلیتوں پر مظالم ڈھائے گی اور عالمی ذمیداریاں پورا کرنے کی استطاعت سے محروم رہے گی۔ قائدِاعظم نے اِن منفی تصورات کی بیخ کنی کے لئے فروری 1948 کے اوائل میں امریکی عوام سے براڈکاسٹ خطاب کیا۔ امریکہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ایک زبردست سپرپاور اور مغربی تہذیب کے اِمام کے طور پر اپنا سکہ جما چکا تھا۔ اِسی بنیاد پر امریکی صدر کے ساتھ برطانوی وزیرِاعظم کو یہ معاہدہ کرنا پڑا کہ جنگ کے خاتمے پر وہ اپنی کالونیاں آزاد کر دے گا۔ اِسی معاہدے کے تحت بھارت اور پاکستان سب سے پہلے آزاد ہوئے تھے۔ قائدِاعظم نے اپنے براڈکاسٹ خطاب میں نئی مملکت کی شناخت، اس کے متوقع آئینی خدوخال، عوامی مسائل اور ملکی وسائل اور اس کے ورلڈ وِیو کے بارے میں درج ذیل بنیادی نکات بیان کیے تھے:
"Pakistan is the premier Islamic State and the fifth largest in the world. The constitution of Pakistan has yet to be framed by the Pakistan Constituent Assembly. I am sure that it will be of a democratic type, embodying the essential principles of Islam. Today, they are as applicable in actual life as they were 1300 years ago. Islam and its idealism have taught us democracy. It has taught equality of men, justice and fairplay to everybody. We are the inheritors of these glorious traditions. In any case, Pakistan is not going to be a theocratic State to be ruled by priests with a divine mission. We have many non-Muslims but they are all Pakistanis. They will enjoy the same rights and privileges as any other citizens and will play their rightful part in the affairs of Pakistan.” (Speeches, Statements & Messages of the Quaid-e-Azam Vol. IV, Page 2692-2694, Bazm-i-Iqbal, Lahore.)
اِس براڈکاسٹ خطاب کا لبِ لباب یہ تھا کہ پاکستان ایک عظیم اسلامی ریاست اور دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ دستورساز اسمبلی اِس کا دستور جلد تیار کر لے گی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ جمہوری مزاج کا ہو گا جس میں اسلام کے لازمی اجزا شامل ہوں گے۔ اسلام نے ہمیں جمہوریت سکھائی ہے اور اِنسانوں کے ساتھ برابری، انصاف اور حسنِ سلوک کا درس دیا ہے۔ اس کے اصول عملی زندگی میں آج بھی اسی طرح قابلِ عمل ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔قائدِاعظم کی اتباع میں یہی کلیدی نکات قائدِملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے اپنی اس تقریر میں بیان کیے جو قراردادِ مقاصد کی بحث سمیٹتے ہوئے دستورساز اسمبلی میں کی گئی تھی۔ اس میں صراحت سے یقین دلایا گیا تھا کہ پاکستان ایک اسلامی، جمہوری اور فلاحی ریاست ہو گی جس میں کسی طور پاپائیت کا عمل دخل نہیں ہو گا۔ یہ اِس عظیم حقیقت کا اعجاز ہے کہ تقریبا دس برس پہلے سید ابوالاعلی مودودی نے حضرت علامہ اقبال کی پہلی برسی پر اپنے خطاب میں قدرے وضاحت سے یہی آفاقی تصور پیش کیا تھا جو ماہنامہ ترجمان القرآن میں دسمبر 1939 میں شائع ہوا۔ اس کے اہم نکات یہ تھے:
اسلامی حکومت کسی مخصوص مذہبی طبقے کے ہاتھ میں نہیں ہو گی بلکہ عام مسلمانوں کے ہاتھ میں ہو گی جو اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت کے مطابق چلائی جائے گی۔ اس میں عاملہ مسلمانوں کی رائے سے بنے گی۔ کسی شخص یا گروہ کو یہ حق حاصل نہیں ہو گا کہ عام مسلمانوں سے ان کی خلافت سلب کر کے خود حاکمِ مطلق بن جائے۔ امیر تنقید سے بالاتر نہ ہو گا۔ ہر عامی مسلمان اس کے پبلک کاموں ہی پر نہیں بلکہ اس کی نجی زندگی پر بھی نکتہ چینی کرنے کا مجاز ہو گا۔ سید ابوالاعلی مودودی عمر بھر اِسی موقف پر قائم رہے اور اِس کی تبلیغ اور اِشاعت میں ہمہ وقت سرگرم نظر آئے۔
اسلامی ریاست کے بارے میں قائدِاعظم کے تصورات کے ساتھ دو اہم شخصیات کا کامل اتفاقِ رائے کی بدولت قراردادِ مقاصد کی منظوری کے وقت کوئی تنازع کھڑا نہیں ہوا بلکہ واضح سمت کے تعین سے عوام کے اندر تعمیرِ وطن کیلئے جوش بڑھ گیا تھا۔ دریں اثنااسلامی ریاست کی تشکیل کے سلسلے میں عالمی شہرت یافتہ اسکالر علامہ اسد پاکستان تشریف لائے تھے۔