افغانوں کی پشتو زبان اور ادب

تاج برطانیہ کا ملازم جی پی ٹینٹ اپنی کتا ب ”افغانستان تاریخ کے آئینے میں” جس کا اُردو ترجمہ ارشد عزیز نے کیا ہے کہ لکھتا ہے کی افغان نہات جری اور جفاکش باشندے ہیں۔ان میں قوم پرستی اور اپنی مذہب سے لگن اور محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔افغان قدرتی طور پر آزادی پسند ہیں۔ وہ اپنے معاملات میں مداخلت پسند نہیں کرتے۔وہ غیر ملکیوں کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے ان کاا شارہ برطا
نوی باشندوں کی طرف ہے۔ وہ برطانوی جو تجارت یا وائسرئے ہند کے نمائندے کی حیثیت سے افغانستان میں مقیم تھے۔ ان ہی وجوہات سے تاج برتانیہ اور افغانستان میں جنگیں بھی ہوئی۔جی بی ٹینٹ کہتا ہے کہ وہ قابائل جو خود کو افغان کہلاتے ہیں ان کی زبان پشتو ہے۔ پشتو زبان کا تعلق آریا اقوام کی یورپی نژاد زبانوں سے ہے۔ تاہم افغانستان میں کچھ علاقے ہیں یہاں پشتو زبان نہیں بولی جاتی۔
مگر آبادی کے اکثریت پشتو بولتی ہے۔جن علاقوں میں پشتو بولی جاتی ہے ان میں جنوب اور مشرق اور شمالی بلوچستان شامل ہے۔ایک علاقے میں بولی جانے والی پشتون زبان دوسرے علاقے میں بولی جانے والی پشتو زبان سے قدرے مختلف ہے۔افغانستان میں تاجک، ہزارہ قزلباش رہائش پذیر ہیں۔ یہ لو پشتو زبان سمجھتے ہیں۔کیونکہ ان کا ایک دوسرے سے رابطے ہیں۔ ہزارہ جات کے باشندے آپس میں پشتو نہیں بولتے بلکہ وہ فاسی یا منگولین نسل کی مادری زبان بولتے ہیں۔تاجک آبادی والے فارسی بولتے ہیں۔ پشتو زبان میں اکھڑ پن اور روکھا پن والے اُوصاف ہیں۔ اس زبان کی ہی اوصاف ان کے بولنے والوں میں بھی ملتے ہیں۔ مگر مشرقی علاقوں کے باشندوں کو یہ زبان عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے۔جی بی ٹینٹ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر ٣٧٦ پر لکھتا ہے کہ قدیم زبانوں کی تاریخ اور ریکارڈ کے بارے میں ایک روایت ہے کہ شاہی وزیر نے روئے زمین پر بولی جانے والی زبانوںکے نمونے شہنشاہ کو پیش کیے۔ مگر پشتو زبان کو نمونہ ایسا تھا جیسے کی خالی برتن سے پتھر بجنے کے آواز آرہی ہے۔ایک ضرب المثل کے مطابق عربی زبان سائنسی زبان ہے۔ ترکی مقاصد کا حصول ہے۔ فارسی زبان میںمٹھاس ہے۔ ہندوستانی زبان نمک کی طرح ہے۔ مگر پشتو ایسی ہے جیسے گدھا ہنستا رہا ہو۔(راقم )گدھے والی بات شاید جی بی ٹینٹ نے اس لیے لکھی کہ پشتونوں کو انگریزوں سے نفرت تھی) اس غیر موافق تبصرے کے باوجود پشتو زبان ایک مضبوط زبان ہے۔ اور اس میں کسی بھی خیال و افکار کو پیش کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔پشتوزبان میں بلوچی زبان کے الفاظ بہت ہی کم ہیں۔ تاہم پشتوزبان میں ہندوستانی زبان کے الفاظ بھی شامل ہیں۔(راقم )شاید اس کی وجہ افغانوں کی صدیوں ہندوستان پر حکمرانی اور پختون فوجوں کی ہنددستان میں آمد و رفت کی وجہ ہو سکتی ہے۔پشتو زبان نے اپنی توجہ ہندوستان اور یورپ کے اسکالروں کی جانب مبذول کرائی ہے۔ پشتو کا تعلق یامیر کے گلاچاچ زبانوں سے ہے۔ اسے بارک کی زبان بھی کہا جاتا ہے۔ یہ زبان وزیرستان میں رہنے والے کافی گورام قبائل بولتے ہیں۔ ان باشندوں کی ایک رایت کے مطابق یہ باشندے عرب سے آئے ہیں۔ ان کی زبان ایک بہت عمر رسیدہ شس ” عمر لابان” نے چار سو برس قبل ایجاد کی۔ یہ باشندے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کا تعلق میر بارک سے ہے۔ اور اس کی زبان اور قبیلے کا نام اس سے موسوم ہے۔ مشرقی ایران مین بھی یہ زبان بولی جاتی ہے۔ اس کا کوئی ادبی ذخیرہ نہیں مگر اسے لکھنے کے لیے عربی و فارسی رسم الخط استعمال کیا جاتا ہے۔پشتوزبان کو جس شخص نے ادبی مقاصد کے لیے پہلے استعمال کیا اس کا نام روشن ہے ۔ یہ روشنوں یا آ تاداس فرقے کا بانی ہے۔ اس نے قومی زبان کو افغانستان میں اپنے عقیدے کو مقبول بنانے کے لیے استعمال کیا۔ افغانوں نے بعد میں قومی ادب کی ضرورت محسوس کی۔ یہ طلب اُس وقت شروع ہوئی جب عربی زبان عام ہوئی۔ عربی زبان سیکھنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔پشتو زبان لکھنے والے ادیب علم و ادب سے بے بہرہ نہیں تھے۔ ان میں اکثر تعلیم یافتہ تھے۔ انہوں نے اپنی سماجی حیثیت کی وجہ سے قدیم زبانوں میں آزادانہ تعلیم حاصل جس میں فارسی بھی شامل ہے۔ان عناصر نے اپنی حب الوطنی اور اپنی مرضی سے شعر و ادب کے اظہار کے لیے مادری زبان پشتو کو اپنا یا۔فارسی کے ممتاز ادیبوں شیراز کے شیخ سعدیاور حافظ نے مشرق وسطیٰ میں تعلیم یافتہ طبقے کا اپنی نگارشات سے متاثر کیا۔ان کے پرستاروں نے ان کے کلام کا پشتو میںترجمہ کیا۔پشتو ادب میں محنت محبت کو جذبات کا مرکز بنایا گیا۔
فارس میں کئی ادوار میں بر سراقتدار حکومتوں نے اپنی شناخت اور شہرت کے لیے ادبی شہ پارے تخلیق کیے۔جن افراد نے اس طرح کی کتابیں مرتب کیں ان میں علماء حضرات شامل تھے۔ یا پھر فتح خان یوسف زئی جیسے خاندان کے افراد شامل ہیں۔جن کی عزت اورمرتبہ کسی سے چھپا ہوا نہیں۔فتح خان یوسف زئی شہنشاہ اورنگ زیب کے ساتھ دکن اور گجرات کی فتوحات میں شامل تھا۔ خٹک سردار خوشحال خان خٹک قبائل کا ممتاز سردار پشاور جنوب میں دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر رہائش پذیر تھا۔
خوشحال خان خٹک ایک قوم پرست سردار تھا۔ علم ادب کا دلدادہ تھا۔ مگر قومیت کی وجہ سے ایک مسلمان با عمل بادشاہ اورنگ زیب کے خلاف تھا۔ خوشحال خٹک نے شاعر و شاعری میں اپنے ہم عصروں کو پیچھے دیا تھا۔فتح خان یوسف زئی اور خوشحال خان خٹک سترویں صدی سے تعلق رکھتے تھے۔ملا عبدلرحمان ایک عظیم پشتو شاعر تھے۔ اس کا تعلق مہمند قبیلہ کی شاخ کریا خیل سے ہے۔اس کا ادبی کام مذہبی اور روحانی شعبے سے تعلق رکھتا ہے۔خوشحال خان خٹک کے کلام کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ملا عبدالحمید نے شاہ تیمور کے دور میں اپنی شاعی کی ابتداء کی۔اسے افغانستان کا شیخ سعدی کہا جاتا ہے۔اس کے بعد قاسم علی آفریدی نے صوفیانہ شاعری میں نام پیدا کیا۔ قاسم علی آفریدی فرخ آباد کے مقام پر پیدا ہوا۔یہ شاعر ہندوستان کو دوکانداروں کا ملک کہتا ہے۔ اس نے ہندوستان میں انگریزی زبان پر روشنی ڈالی۔دیگر افغان سرداروں نے نواب مہابت خان اوراللہ یار روہیلہ نے بھی کتابیں مرتب کیں۔افغان باشندوںکی تاریخ اہم واقعات خاص کر فتوحات کے ذمہ داروں کی کہانیاں اور واقعات کو نظموں ک شکل میں بیان کیا۔یہ نظمیں مختلف قبائل کے حوصلوں کو بلند رکھتی ہیں۔اور ان نظموں سے بغاوت کے رجحان پر وان چڑھتے ہیں۔ علماء جو بغاوتوں میں شامل ہوتے تھے کی تعلیمات کا اثر ہے کہ افغان بہادر ہیں۔ امن کے طویل دور کے بعد قبائل ہر اجتماع یا گائوں میں شام کے وقت اپنے اکابرین اور ہیروز کی شان میں نظمیں گاتے ہیں۔ان نظموں میں افغانیوں میں مثبت انتہا پسندی کے اوصاف اور رجحان پیدا ہوتے ہیں۔ایسی نظمیں افغانیوں کو عمل پر ابھارتی ہیں۔اس سے ان کی مقبولیت اور شہرت میں اضافہ ہوتا ہے۔
نوشہرہ کی جنگ میںسکھوں نے افغانیوں کو شکست دی تھی۔ ان کا سردار عباس خان شہید ہوا تھا۔اس پر پشتو میں نظم لکھی گئی۔ جس کا ترجمہ میجر راویرٹی نے انگریزی زبان میں تھا۔یہ ترجمہ اعلیٰ قسم کا شاہکار ہے۔پیر روشن کا لڑکا اورپوتا اس جنگ میں شہید ہوا تھا۔پیرروشن کے پیروکار اس علاقے میں آباد ہیں اس کے علاوہ ہندوستان کے کئی علاقوں میں بھی اس کی مرید آباد ہیں۔میر روشن خان کی ایک شاخ ١٦٠٩ء میں پنجاب میںجالندھر میں آبادہوئی۔شاہ جہاں کے دربار میں حاضری دی اور اطاعت قبول کی۔شاہ نے اسے ایک ہزار گھڑ سواروں کے دستے کا کمانڈر مقرر کیا۔ دہلی کے شمال میں پانی پت کے مقام پر زمیں بھی فراہم کی۔علماء کو افغانستان میں عزت دی جاتی ہے۔انگریز اسی بات سے ہمیشہ خوف زدہ رہے۔