قیامت خیز مہنگائی !

پاکستان میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پوری آب وتاب کے ساتھ جلوہ گر ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے قوم سے خطاب کے دوران ارشاد فرمایا تھا کہ ہمیں علم ہے کہ ملک مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے ہم لوگوں کو ریلیف دیں گے اور کھانے پینے کی اشیا میں عوام کو سبسڈی دی جائے گی۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں پوری دنیا میں اضافہ ہورہا ہے لہذا پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں مزید اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم کے خطاب کا مقصد قوم کو تسلی تشفی دینا تھا لیکن ان کے خطاب کے چند گھنٹوں کے بعد ہی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اچانک رات گئے اضافہ کردیا گیا۔ ابھی عوام کے پٹرول بم سے اوسان خطا تھے کہ نیپرانے بجلی 1.63روپے مہنگی کرنے کے احکامات صادر فرما دیے، اگلے ہی دن چینی کی قیمتیں 150روپے سے 170کلو تک پہنچ گئیں، ادارہ شماریات کے مطابق کم آمدن والے افراد کے لیے مہنگائی کی شرح 16.43فی صد پر پہنچ چکی ہے۔ صرف ایک ہفتے کے دوران 28اشیا صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ بڑھتی ہوئی اس خوفناک اور قیامت خیز مہنگائی نے عوام کی چیخیں ہی نکال دی ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی قوم سے وعدہ کیا کہ وہ پاکستان کو ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ قوم کی لوٹی گئی دولت بیرون ممالک کے بینکوں سے واپس لائی جائے گی۔ انہوں عوام سے کہا کہ ملک کی دولت سابقہ حکمرانوں نے لوٹ کر کھالی ہے اور قومی خزانہ بالکل خالی ہے۔ ہماری حکومت کو تھوڑی مشکلات اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا بس عوام کو گھبرانا نہیں ہے بے چارے عوام جنہوں نے تبدیلی کے خوشنما نعروں پر کپتان کو ووٹ دیا اور ان پر اعتماد کیا۔ لیکن عمران خان بھی سابقہ حکمرانوں کی طرح ایک فنکار اور اداکار ہی نکلے۔ ایک کروڑ نوکریاں کیا دیتے ان کے ساڑھے تین سال دور حکومت میں پچاس لاکھ ملازمین کو بے روزگار کر دیا گیا ہے۔ ملک میں کارخانے لگانے کے بجائے لنگر خانے کھولے جارہے ہیں اور پوری قوم کو فقیر بنا دیاگیا ہے۔ لوگ مہنگائی بے روزگاری سے تنگ آکر اپنے بیوی بچوں سمیت خودکشیاں کر رہے ہیں۔ عوام کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل ہوگیا ہے اور لوگ ایک وقت کا کھانا کھا رہے ہیں۔ پاکستان میں تو ایسے بدترین حالات شاید ہی کبھی آئے ہوں کہ آٹا بھی عوام کی دسترس میں نہیں رہا ہے۔ پہلے لوگ صرف روٹی پیاز کھا کر سو جاتے تھے لیکن آٹا آج 70سے 80روپے کلو پر فروخت ہورہا ہے۔ یوٹیلیٹی اسٹور پر جو سستا آٹا فروخت کیا جا رہا ہے وہ اتنا خراب ہے کہ گائے بھینس بھی نہ کھائے۔
وزیر اعظم صاحب آپ نے قوم سے کہا تھا کہ مشکلات آئیںگی آپ کو گھبرانا نہیں ہے اور قوم صبر وتحمل کے ساتھ آپ کے ساتھ کھڑی رہی اور ذرا بھی نہیں گھبرائی جبکہ آپ تو خودکشی کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ ملک میں جتنی کرپشن کل تھی آج بھی اتنی ہی کرپشن کی جارہی ہے۔ آٹا اسکینڈل، چینی اسکینڈل میں وہ لوگ ہی ملوث ہیں جو آپ کے دائیں بائیں بیٹھتے تھے۔ آج مہنگائی حکومت کے کنٹرول سے باہر ہوچکی ہے۔ پٹرول بم اتنی بار برسایا گیا کہ عوام کا ہی تیل نکل چکا ہے۔ عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمت 80ڈالر فی بیرل ہے اس کے باوجود پٹرول کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جا رہا ہے اور جب عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتیں کم ہوتی تھی جب بھی پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی نہیں کی گئی جس کی وجہ سے مہنگائی اور غربت میں بے انتہا اضافہ ہوا اور مہنگائی کے خاتمے کے حکومتی دعوے غیر موثر ہو گئے ہیں۔ حکومت کی نااہلی اور غلط معاشی پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں ایسی مہنگائی آئی ہے جو کہ پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے اور عوام اب حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتبار کرنے کو بھی تیار نہیں ہیں۔ ملک میں مزید مہنگائی کے خدشات بڑھ گئے ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت پاکستان 525ارب کے نئے ٹیکس لگائے اور قوی امید ہے کہ عمران خان کی حکومت ماضی کے حکمرانوں کی طرح دلجمعی کے ساتھ آئی ایم ایف کے تمام مطالبات من وعن تسلیم کر لے گی اور جن سخت شرائط پر اپنی عیاشیوں کے لیے قرضہ لیا جائے گا اس کا خمیازہ تو آنے والی نسلیں ہی بھگتے گی۔
ساڑھے تین سال سے قوم وزیر اعظم کے خوش کن اور دلفریب نعرے سن سن کر اب تنگ آگئی ہے اور عوام کے صبر کا پیمانہ بھی اب لبریز ہوچکا ہے۔ حکومت کی پالیسی کے نتیجے میں ملک میں قیامت خیز مہنگائی کا اندیشہ پیدا ہوگیا ہے اور امکان ہے کہ ایک ماہ میں پٹرول کی قیمت 150روپے اور بجلی کے نرخوں میں ڈھائی روپے کا اضافہ ہوجائے گا اور اس کے نتیجے میں حکومت کو 52ارب روپے مزید آمدنی ہوجائے گی۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر نے تو بڑی ہی ڈھٹائی کے ساتھ قوم کو ہری جھنڈی دکھاتے ہوئے کہہ دیا کہ عوام کو جتنا ریلیف دے سکتے تھے دے دیا ہے اگلے چند ماہ میں مہنگائی کم ہونے کا امکان نہیں ہے۔ بلاشبہ پاکستان اس وقت ایک بڑے معاشی بحران میں مبتلا ہے اور تحریک انصاف کی حکومت نے پاکستان کو ایک تجربہ گاہ بنا دیا ہے۔ ساڑے تین سال کے دور حکومت میں ملک کو ایک دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے اور ملک کی خارجہ پالیسی اور معاشی پالیسی کا جنازہ نکال دیا ہے۔ ڈالر 173روپے کا ہوگیا ہے قوم سے جھوٹ پر جھوٹ اور دھوکے پر دھوکا دیا گیا ہے۔ بیرون ممالک میں قوم کی لوٹی گئی دولت ہی ملک میں واپس لے آتے تو آئی ایم ایف کا قرض بھی اتر جاتا اور دیگر ترقیاتی منصوبے بھی مکمل ہوجاتے۔ لیکن ہمارے حکمران آئی ایم ایف کی غلامی کا طوق اوڑھ کر اپنی عوام کو بیچنے اور انہیں غلام بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ غریب عوام کپتان کے خوشنما نعروں اور ڈی چوک کی چکاچوند میں ایسے گھرے کہ اب اس کے چودہ طبق بھی روشن ہوگئے ہیں۔ ایسے بدترین حالات میں ہمارے بے حس حکمران چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ انہیں کچھ خبر ہی نہیں کہ ان کے پائوں تلے زمیں نکل رہی ہے۔ پاکستان کا غریب اور متوسط طبقے کی زندگی بد سے بدحال ہوتی چلی جارہی ہے۔ مراعات یافتی طبقہ جو ہر دور حکومت میں اقتدار کی چھتری میں پناہ حاصل کرتا رہتا ہے آج یہ طبقہ پھل پھول رہا ہے اور غریب عوام خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ کپتان کہہ رہا تھا کہ گھبرانا نہیں لیکن غریب عوام اب کپتان سے اجازت مانگ رہے ہیں کہ ظل الہی برا نہ مانے اور آپ کی اجازت ہو تو غریب بے بس لاچار مظلوم عوام اب تو تھوڑا سا گھبرا لیں