کون سے پانچ سال؟

کپتان پانچ سال کا حوالہ تو ایسے دے رہے ہیں جیسے ابھی ان کے اقتدار کی مدت ابھی پانچ سال باقی ہے حالانکہ وہ ساڑھے تین سال گزار چکے ہیں اور بمشکل ڈیڑھ سال باقی ہے۔ پھر کون جانے کس کی باری آئے۔ اب ان کا یہ فرمانا پانچ سال بعد دیکھیں گے غربت کم ہوئی یا زیادہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ان ساڑھے تین برسوں میں وہ کبھی سال اور کبھی چھ ماہ بعد اچھے دنوں کی نوید سناتے رہے ہیں اچھے دن تو نہیں آئے بلکہ الٹا برے دنوں میں بھی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ گویا فی الوقت کپتان کو کہیں غربت نظر نہیں آ رہی اور نہ ہی وہ فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں ہیں ان کے دورِ اقتدار میں یہ بڑھی ہے یا کم ہوئی ہے۔ خلق خدا دہائی دے رہی ہے خود کپتان کئی مرتبہ تسلیم کر چکے ہیں مہنگائی بہت زیادہ ہے مگر وہ اس بات کو تسلیم نہیں کر رہے کہ غربت میں اضافہ ہو گیا ہے جب ہر نیا دن مہنگائی میں اضافہ لے کر آتا ہے تو غربت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ پچھلے چند دنوں کے دوران ایک عام گھرانے پر تین ہزار روپے ماہانہ کا بوجھ مزید پڑ چکا ہے۔ کل ہی نیپرا نے بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 1.68 روپیہ کے اضافے کی منظوری دے دی ہے، گویا بجلی مزید مہنگی ہو گئی ہے ایسے میں وزیر اعظم یہ ماننے کو تیار نہیں کہ غربت نے عوام کے کس بل نکال دیئے ہیں بلکہ وہ اس کے لئے پانچ سال پوے ہونے کی شرط عائد کر رہے ہیں۔
پٹرول کی قیمت میں اضافے پر اپوزیشن نے پارلیمینٹ میں جو احتجاج کرنا تھا کر لیا۔ وزیر اعظم کو چور کہا، ظالم کہا، نعرے بازی کی اور بائیکاٹ کر دیا۔ اب بھلا وہ اس کے علاوہ کر بھی کیا سکتی ہے اور دوسرا ایسے احتجاج کا حکومت پر کیا اثر ہو سکتا ہے۔ یہ تو اب روزانہ کا معمول ہے۔ یہی اپوزیشن جو ایوان کے اندر مہنگائی پر متحد ہو جاتی ہے باہر متحد نہیں ہوتی، علیحدہ علیحدہ ڈفلی بجاتی ہے۔ مہنگائی کے یک نکاتی ایجنڈے پر اپوزیشن اگر مل جائے اور بھرپور احتجاج سڑکوں پر کرے، دھرنے دے، ریلیاں نکالے تو شاید حکومت پر اس کا کوئی اثر بھی ہو۔ ابھی تو وہ اپنی ناکامیوں کا ملبہ خود اپوزیشن پر ڈالتی ہے کہ اس کی وجہ سے ملک کی معیشت کا یہ حال ہوا ساڑھے تین برس گزر جانے کے باوجود اگر کوئی حکومت ماضی کا رونا روتی رہے تو سمجھو وہ اگلے دس برسوں میں بھی کچھ نہیں کر سکتی۔ اگر تھوڑی بہت سمت ہی سیدھی نظر آئے تو امید پیدا ہو جاتی ہے۔ اس حکومت نے تو ساری امیدیں ہی ختم کر دی ہیں وزیر اعظم نے عملا ہاتھ نہیں کھڑے کئے تاہم ان کی باتوں سے یہی لگتا ہے وہ ہار مان گئے ہیں۔ انہوں نے چینی کی قیمتوں کے حوالے سے اٹک میں جو گفتگو کی وہ ایک بے بس حکمران کی تقریر تھی۔ جو ہار مان چکا ہے جو صرف یہ بتا رہا ہے میں نے یہ معلوم کیا، وہ معلوم کیا، جس کے ہاں الیکشن بالکل نظر نہیں آ رہا۔ جو کبھی عدالتوں کے حکم امتناعی کی مجبوریاں گنواتا ہے اور کبھی مافیا کے گٹھ جوڑ کی کہانیاں سناتا ہے وہ دبدبا، وہ طرز حکمرانی اور وہ مافیا کے سامنے ہتھیار نہ ڈالنے کی باتیں کیا ہوئیں؟
اگر حکومت ایک مافیا کے سامنے بے بسی کا اظہار کرے گی تو باقی مافیاز خودبخود اپنے دانت تیز کر لیں گے۔آج وزیراعظم کہتے ہیں سندھ میں تین شوگر ملیں بند ہو گئیں جس کی وجہ سے چینی کے ریٹ بڑھے کیا صرف تین شوگر ملیں ہی ملک میں ہیں۔ وہ لوگ جو کابینہ کے اندر بیٹھے ہیں اور جن کی شوگر ملیں ہیں کیا وہ اپنا اسٹاک باہر لائے۔ ایک طرف وہ شوگر مافیا کا حصہ ہیں اور دوسری طرف حکومت میں بیٹھ کر اس کا تحفظ کر رہے ہیں۔ اپوزیشن ٹھیک ہی تو کہتی ہے چینی مہنگی کرنے والے تو وزیر اعظم کے اردگرد موجود ہیں، ان پر ہاتھ کون ڈالے گا، اربوں روپے کا فائدہ ہو رہا ہو تو پارٹی مفاد کو کون دیکھتا ہے، پٹرول آپ عالمی منڈی میں قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے مہنگا کرتے ہیں اور چینی اس لئے مہنگی ہو جاتی ہے کہ مافیا پر ہاتھ ڈالنا آپ کے بس میں نہیں ہوتا، تو بس میں صرف کیا یہی ہے کہ عوام کو لٹنے کے لئے چھوڑ دیا جائے۔ ان کی جمع پونجی بھی نکلوالی جائے اور ان سے کہا جائے پانچ سال بعد دیکھنا ملک میں غربت نام کی کوئی شے تک نہیں ہو گی۔ حالانکہ حالات یہی رہے تو ملک میں غریب نام کا کوئی شخص زندہ نہیں ملے گا۔ اس وقت تو یہ لگ رہا ہے حکومت عوام کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ چکی ہے۔ صوبائی حکومتیں بھی عضو معطل بن کر رہ گئی ہیں کسی چیز پر کسی کا کنٹرول نہیں جس کی جو مرضی آتی ہے کئے جا رہا ہے۔ اسے کسی بات کا خوف ہے نہ حکومت کا ڈر، عوام دکانداروں کے سامنے بے بس ہیں اور دکاندار بڑے بڑے ڈیلروں، آڑھتیوں اور ذخیرہ اندروزوں کے نرغے میں ہیں۔ ایک عجیب افراتفری اور انارکی کا عالم ہے۔ صبح کو نرخ کچھ اور ہوتے ہیں شام کو کچھ اور ہو جاتے ہیں پرائس کنٹرول کمیٹیاں ہیں اور نہ پرائس کنٹرول مجسٹریٹس کہیں نظر آتے ہیں کیا یہ بھی آئی ایم ایف کا کیا دھرا ہے کیا ریاستی مشینری کو اس طرح بے اختیار کر کے گڈ گورننس کی امید کی جا سکتی ہے؟
آج ہر شخص یہ دہائی دے رہا ہے صرف بازاروں ہی میں نہیں سرکاری دفاتر میں بھی لوٹ مچی ہوئی ہے۔ بیورو کریسی جتنی بے لگام اور بے خوف آج ہے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ سرکاری افسر عوام کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کر رہے ہیں، انہیں معلوم ہے ہم بہت تھوڑے دنوں کے لئے تعینات ہوتے ہیں، جتنی لوٹ مچا سکتے ہیں مچا لیں اس کے بعد ٹرانسفر تو ہونا ہی ہے۔ آئے روز پولیس اور ڈی ایم جی افسروں کے تھوک کے حساب سے تبادلے ہوتے ہیں ان تبادلوں کا مقصد کیا ہے، ایک عوام دشمن کے بعد دوسرا آ جاتا ہے اور ریلیف کہیں سے نہیں ملتا۔ ایک طرف اشیا کی مہنگائی ہے تو دوسری طرف جائز کاموں کے لئے بھی رشوت کے ریٹ دوگنا ہو گئے ہیں یہ بات میں زیبِ دوستاں کے لئے نہیں کر رہا بلکہ سامنے کی حقیقت ہے کسی سرکاری دفتر سے آپ کوئی کام بغیر رشوت کے کرالیں تو آپ کو وقت کا ولی مان لیا جائے گا۔ کل ایک پروفیسر صاحب مجھے بتا رہے تھے بیٹے کا ڈومیسائی بنوانے کے لئے بھی انہیں ایک ہزار روپیہ رشوت دینی پڑی وگرنہ اعتراضات ان کے منتظر تھے۔ یہ سب کچھ انہی ساڑھے تین برسوں میں بڑھا ہے۔ حالانکہ نئے پاکستان میں ان سب چیزوں کو کم ہونا چاہئے تھا۔ کیا گڈ گورننس کے بارے میں بھی کپتان یہی کہیں گے پانچ سال بعد دیکھنا بہتر ہوئی ہے یا نہیں۔؟
٭٭٭٭٭٭