ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کا روپے کی قدر کے اتار چڑھاؤ میں مداخلت کا اعتراف

اسلام آباد: ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر کے اتار چڑھاؤ میں مداخلت کا اعتراف کرلیا۔ 

سینیٹر طلحہ محمود کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا، جس میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی پر بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ ایکسچینج ریٹ کی حرکت کا مہنگائی پر اثر پڑتا ہے، ایکسچینج ریٹ کا اثر اس وقت مہنگائی پر نظر آتا ہے، اس وقت خوراک اور توانائی کی مہنگائی پوری دنیا میں ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ لاہور میں ایک شخص سے 65 لاکھ ڈالر پکڑے گئے ہیں، ڈالر افغانستان اسمگل ہورہا ہے جس کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی ہوئی۔ ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک نے چیئرمین کمیٹی کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ مارکیٹ میں طلب و رسد ایکسچینج ریٹ کا تعین کرتا ہے۔

پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ڈالر کی اڑان سے فائدہ ہونے کی باتیں درست نہیں ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک کا بیان حقائق کے برعکس ہے، آج روپیہ ٹکے سے بھی آدھا ہوگیا ہے، ڈالر کے حوالے سے عالمی ادارے کہہ رہے ہیں کہ 200 تک جائے گا، ایک دم ڈالر کے اوپر جانے پر اسٹیٹ بینک نے کوئی جواب نہیں دیا، ہمیں تو حکومت کی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ جو بیان گورنر اسٹیٹ بینک نے دیا اس کی کیا مقصد تھا، حکومت کے غیر ذمہ دار بیانات کا عوام پر اثر پڑتا ہے، گورنر اسٹیٹ بینک کوئی سیاسی عہدہ نہیں ہے ان کو سیاسی بیان نہیں دینے چاہیے۔ ق لیگ کے سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ گورنر اسٹیٹ کا بیان غلط ہے اور بیرون ملک پاکستانیوں کو اس سے نقصان ہورہا ہے، روپے کی قدر کو مستحکم کرنا حکومت کی اور اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے۔ بی اے پی کے سینیٹر انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ  مجھے افسوس ہورہا ہے گورنر اسٹیٹ بینک نے ایسا بے تکا بیان دیا ہے، ایسے بیان کا اسٹیٹ بینک کے لوگ دفاع کررہے ہیں، روپے کے اتار چڑھاؤ پر قابو پانا اسٹیٹ بینک کی ذمہ داری ہے، جب سے گورنر اسٹیٹ بینک آئے ہیں روپے کی قدر میں بہت بڑی کمی آئی ہے۔

ن لیگ کی سینیٹر سعدیہ عباسی کا کہنا تھا کہ مہنگائی پاکستان میں بلکل بے قابو ہوچکی ہے، یوٹیلیٹی پرائسز اور آئل پرائسز میں اضافہ ہورہا ہے، آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے حوالےسے بتایا جائے کہ مذاکرات چل رہے ہیں۔ لیگی سینیٹر مصدق ملک کا کہنا تھا کہ کیا اسٹیٹ بینک نے پچھلے 3 سال میں ڈالر کی قیمت کے حوالے کوئی مداخلت نہیں کی، تین سال میں 50 فیصد روپے کی قدر میں کمی ہوئی اور برآمدات 3 فیصد بڑھیں، درآمدات زرا کم ہوئیں تو شادیانے بجائے گئے، روپے کی قدر میں کمی سے جی ڈی پی تباہ ہوئی،اب پالیسی ریٹ بڑھانے کی بات ہورہی ہے تو پھر معیشت ڈوبنے کا خطرہ ہے، ڈالر ایک روپیہ مہنگا ہوتو کیپسٹی پیمنٹ میں 3 ارب روپے کا اضافہ ہوا ہے۔  حکومتی سینیٹر ولید اقبال نے بھی گورنر اسٹیٹ بینک کے بیان کو حقائق کے منافی قرار دے دیا۔

اجلاس میں ڈپٹی گورنر اسٹیٹ نے روپے کی قدر کے اتار چڑھاؤ میں مداخلت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں مرکزی بینکس مداخلت کرتے ہیں۔ جس پر سینیٹر کامل علی آغا نے ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک سے سوال کیا کہ اسٹیٹ بینک کیسے مداخلت کرتی ہے ہمیں بتایا جائے، ڈالر 153 سے 175 پر چلا گیا اسٹیٹ بینک نے مداخلت کیوں نہیں کی۔ ایم کیو ایم پاکستان کے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا کہ جب میکنزم ہے تو پھر بتایا جائے کہ کس وقت مداخلت کی جاتی ہے۔

سینیٹر کامل علی آغا نے کہا کہ عالمی مارکیٹ میں مہنگائی کی بات کی جاتی ہے تو پھر ڈالر کی قیمت کیوں بڑھ رہی ہے، اشیاء ضروریہ کی قیمتوں میں ایک دفعہ اضافہ ہوجائے تو پھر کمی نہیں ہوتی، اسحاق ڈار کو اسحاق ڈالر کہتے تھے کہ وہ گیمبلنگ کرتے تھے، آج تو 24 دفعہ گیمبلنگ ہوئی ہے اور کوئی پوچھتا نہیں ہے۔

اجلاس میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے حوالے سے کمیٹی ارکان پھٹ پڑے، اور کمیٹی نے گورنر اسٹیٹ بینک کے بیان پر وضاحت طلب کرلی، جب کہ کمیٹی نے ایکسچینج ریٹ میں مداخلت کا میکنزم بھی اسٹیٹ بینک سے طلب کرلیا۔