شمالی وزیرستان کے دہشت گرد گروپ کا 20 روزہ جنگ بندی کا اعلان

خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں متحرک دہشت گرد گروپ نے حکومت کے ساتھ امن کے لیے 20 روز تک دشمنی کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

سرکاری ذرائع نے کہا کہ حافظ گل بہادر کی قیادت میں شمالی وزیرستان کے شورا مجاہدین گروپ نے دو ہفتے قبل حکومتی مصالحت کاروں سے مذاکرات کے بعد جنگ بندی کا اعلان کیا۔

دہشت گرد گروپ کا کہنا تھا کہ دشمنی کا خاتمہ قبائلی ضلع میں امن کے لیے اس کی ‘سنجیدگی’ کی عکاسی کرتا ہے۔

یہ اعلان وزیر اعظم عمران خان کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے کہ ان کی حکومت نے تشدد کے خاتمے کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مختلف گروپوں سے ‘مفاہمتی عمل’ کا آغاز کیا ہے۔

ترک نشریاتی ادارے ‘ٹی آر ٹی’ کو انٹرویو کے دوران انہوں نے اشارہ دیا تھا کہ اگر دہشت گرد گروپ ہتھیار ڈال دے تو ان کی حکومت انہیں معاف کردے گی، تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اس حوالے سے ابھی کچھ نہیں کہہ سکتے کہ مذاکرات کیسے آگے بڑھیں گے۔

خیال رہے کہ گل بہادر اور ان کا گروپ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا حصہ نہیں ہے۔

گل بہادر، جون 2014 میں شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ‘ضرب عضب’ کے دوران انڈرگراؤنڈ یا ممکنہ طور پر افغانستان فرار ہوگیا تھا۔

ذرائع نے کہا کہ شمالی وزیرستان کے دو دیگر دہشت گرد کمانڈرز صادق نور اور صادق اللہ نے بھی شوریٰ کے فیصلے کی توثیق کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت کے ساتھ مذاکرات میں پیشرفت ہوتی ہے تو گل بہادر گروپ جنگ بندی میں توسیع کر سکتا ہے۔

واضح رہے کہ ماضی میں گروپ سے مذاکرات کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا کیونکہ دہشت گرد کمانڈر نے ہتھیار رکھنے کا حق، قبائلی اضلاع میں خصوصی غیر مسلح زون اور جیلوں سے ان کے ساتھیوں کی رہائی سمیت سخت شرائط رکھی تھیں۔

کالعدم ٹی ٹی پی سے مذاکرات

ذرائع نے کہا کہ پڑوسی قبائلی ضلع جوبی وزیرستان میں حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان پس پردہ مذاکرات بھی جاری ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سابق سینیٹر صالح شاہ دونوں فریقین کے درمیان سہولت کار کا کردار ادا کر رہے ہیں۔

صالح شاہ اور ٹی ٹی پی کے سینئر کمانڈروں کے درمیان پہلی ملاقات گزشتہ ہفتے ہوئی تھی۔

اب تک ٹی ٹی پی نے ایمنسٹی کی پیشکش مسترد کرتے ہوئے مذاکرات آگے بڑھانے کے لیے مخصوص شرائط رکھی ہیں۔

کالعدم دہشت گرد گروپ نے متعدد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جس سے جنوبی وزیرستان میں جانی نقصان ہوا۔