وزیر خارجہ شاہ محمود کی پہلی مرتبہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ سے ملاقات

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے آج نیویارک میں امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن سے پہلی مرتبہ ملاقات کی جس میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ممکنہ طور پر افغانستان کے مسئلے پر بات ہوئی۔

تقریباً ایک گھنٹے تک جاری رہنے والی یہ ملاقات امریکی محکمہ خارجہ کی ویب سائٹ پر نیویارک کے پیلس ہوٹل میں دوپہر 1 بجے شروع ہوئی، دونوں اعلیٰ سفارت کاروں کے درمیان یہ پہلی ملاقات ہے۔

امریکا اور پاکستان دونوں نے کہا ہے کہ وہ بعد میں اس ملاقات کے حوالے سے بیان جاری کریں گے جبکہ انٹونی بلنکن مقامی وقت کے مطابق شام پونے 5 بجے پریس بریفنگ بھی دیں گے۔

پاکستان طویل عرصے سے خصوصاً کابل میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کے خاتمے کے بعد امریکی قیادت سے اعلیٰ سطح کے رابطوں کا خواہشمند ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76 ویں اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود شاہ محمود قریشی نے اپنے ہم منصبوں کے ساتھ دوطرفہ ملاقاتوں کا ایک سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے، انہوں نے اپنی ملاقاتوں اور دیگر مصروفیات میں عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کے ساتھ رابطے برقرار رکھیں۔

توقع ہے کہ وہ امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ سے ملاقات میں بھی انہوں یہی بات کی ہو گی پاکستان نے ابھی تک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں طالبان کے مطالبے کی حمایت نہیں کی ہے۔

جمعرات تک یہ واضح ہو گیا تھا کہ افغانستان کے نئے حکمرانوں کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے موجودہ سیشن میں ملک کی نمائندگی کرنے کا امکان نہیں ہے۔

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں طالبان کی شرکت کا مسئلہ

پچھلی افغان حکومت کے نمائندے مل میں طالبان کی حکومت کے باوجود اب بھی اقوام متحدہ میں افغان مشن میں موجود ہیں، منگل کو انہوں نے اس سیشن میں شرکت کی جس سے امریکی صدر جو بائیڈن نے خطاب کیا۔

ایک سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ جب تک اعلیٰ ساکھ کی حامل اقوام متحدہ کی کمیٹی مشن کے حوالے سے فیصلہ نہیں کرتی، اس وقت تک وہ مشن میں موجود رہیں گے۔

15 ستمبر کو اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اس وقت تسلیم شدہ افغان سفیر غلام اسحاق زئی سے ایک خط وصول کیا جس میں کہا گیا تھا کہ وہ اور ان کی ٹیم کے دیگر ارکان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 76ویں اجلاس میں افغانستان کی نمائندگی کریں گے۔

تاہم 20 ستمبر کو طالبان کے زیر کنٹرول افغان وزارت خارجہ نے بھی گوتیرس کو ایک پیغام بھیجا تھا جس میں موجودہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی درخواست کی گئی تھی اور اس خط پر طالبان رہنما امیر خان متقی نے نئے افغان وزیر خارجہ کے طور پر دستخط کیے تھے۔

اقوام متحدہ کے ترجمان اسٹیفن ڈوجارک نے نیویارک میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دونوں خطوط موصول ہونے کی تصدیق کی تھی۔

دوجارک نے کہا تھا کہ خط میں کہا گیا ہے کہ سابق افغان صدر اشرف غنی کو 15 اگست کو بے دخل کردیا گیا تھا اور اس وجہ سے ان کے ایلچی اب افغانستان کی نمائندگی نہیں کرتے۔

افغانستان کو 27 ستمبر تک جنرل اسمبلی سے خطاب کرنا ہے لیکن اس وقت طالبان کو جگہ ملنے کا امکان نہیں ہے۔

ڈان سے بات کرنے والے سفارتی ذرائع نے بتایا کہ اس طرح کے فیصلے کرنے والی جنرل اسمبلی کی نو رکنی اعلیٰ سطح کی کمیٹی کے 27 ستمبر سے پہلے ملنے کا امکان نہیں ہے۔

تاہم ذرائع نے تصدیق کی کہ سیکریٹری جنرل کے دفتر نے مالدیپ کے جنرل اسمبلی کے صدر عبداللہ شاہد سے مشاورت کے بعد کمیٹی کو دونوں خط بھیجے تھے، کمیٹی کے موجودہ ارکان میں امریکا، روس، چین، بہاما، بھوٹان، چلی، نمیبیا ، سیرالیون اور سوئیڈن شامل ہیں۔

واشنگٹن میں سفارتی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ امریکا کو طالبان کی اقوام متحدہ میں جائز افغان حکومت کے طور پر شمولیت کی درخواست کی توثیق کرنے کی کوئی جلدی نہیں ہے۔

مختلف امریکی ذرائع ابلاغ کے ذرائع سے بات کرتے ہوئے امریکی محکمہ خارجہ کے سینئر عہدیداروں نے کہا کہ وہ طالبان کی درخواست سے آگاہ ہیں لیکن غور و خوض میں کچھ وقت لگے گا ، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ طالبان کا نمائندہ 27 ستمبر کو یو این جی اے سے خطاب نہیں کرے گا۔

تاہم ایک امکان یہ ہے کہ افغانستان کے موجودہ سفیر کو جنرل اسمبلی سے خطاب کی اجازت نہ دی جائے کیونکہ یہ سابقہ ​​حکومت کی حمایت کی نشاندہی کرے گی اور اس کے وسیع پیمانے پر اثرات مرتب ہوں گے۔

لیکن سابق افغان حکومت کو اقوام متحدہ میں اب بھی حمایت حاصل ہے اور بظاہر بھارت اس مہم کی قیادت کر رہا ہے تاکہ ان کے ان کے ایلچی کو جنرل اسمبلی سے خطاب کا موقع دلا سکے۔

کسی طالبان رہنما کو جنرل اسمبلی سے خطاب کی اجازت دینا اقوام متحدہ کی جانب سے کابل میں نئی انتظامیہ کو تسلیم کرنے سے تعبیر کیا جائے گا اور اقوام متحدہ ابھی تک ایسا کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

جب طالبان نے آخری بار 1996 سے 2001 تک حکومت کی تو اقوام متحدہ نے ان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور اس کے بجائے افغانستان کی سیٹ صدر برہان الدین ربانی کی سابقہ ​​حکومت کو دے دی تھی۔

امریکی میڈیا نے نوٹ کیا کہ اس بار اقوام متحدہ طالبان کے لیے نرم رویہ اختیار کر سکتی ہے لیکن یہ صرف اس صورت میں ہو گا جب وہ جامع حکومت بنائیں گے، انسانی حقوق کی ضمانت دیں گے، لڑکیوں کی اسکولوں میں واپسی اور خواتین کو کام پر جانے کی اجازت دیں گی۔