حکومت کی پریشان چینی سرمایہ کاروں کو جلد جزوی ادائیگی کا امکان

اسلام آباد: حکومت کی جانب سے آئندہ چند روز میں آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) اور دیگر منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی پریشان چینی کمپنیوں کے خدشات دور کرنے کے لیے قابل ادا ایک ارب 40 کروڑ ڈالر میں سے جزوی ادائیگی کا امکان ہے۔

ایک سینئر سرکاری افسر نے بتایا کہ پاک ۔ چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت کام کرنے والے پاور پروڈیوسرز کو قابل ادا رقم ایک ارب 40 کروڑ ڈالر (2 کھرب 30 ارب روپے) سے تجاوز کر گئی تھی اور چینی سرمایہ کار اس کے خلاف اعلیٰ حکومتی سطح پر احتجاج کررہے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم کم از کم کچھ ادائیگیوں کو جلد از جلد کلیئر کرنے کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔

دوسری جانب داسو ہائیڈرو پاور پروجیکٹ، جو سی پیک کا حصہ نہیں ہے، اس کے چینی ٹھیکیداروں نے پاک فوج کی جانب سے وسیع پیمانے پر سیکیورٹی کے باوجود تعمیراتی سرگرمیاں دوبارہ شروع نہیں کیں، جو 2 مہینے پہلے دہشت گرد حملے کے باعث رکی تھیں۔

سینئر عہدیدار نے بتایا کہ انہوں نے کام پر واپس آنے کے لیے معاوضے کا مسئلہ اٹھایا ہے جو دستیاب فورمز کے تحت معقول بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے لیکن تعمیراتی کام مزید تاخیر کے بغیر شروع کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے نشاندہی کی کہ چینی ٹھیکیداروں نے اسی طرح کے ایک واقعے کے بعد مہمند ڈیم پر بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا لیکن دوطرفہ رابطوں کے تقریباً ایک ہفتے کے بعد کام دوبارہ شروع کر دیا گیا تھا۔

ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ادائیگی ایک مسئلہ ہے لیکن فی الحال کسی کمپنی نے کوئی ڈیفالٹ نوٹس نہیں دیا جیسا کہ بجلی کی خریداری کے معاہدوں میں تصور کیا جاتا ہے اور ظاہر ہے بروقت ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے واجبات کا ڈھیر لگ گیا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت نے ایک ریوالونگ فنڈ قائم کرنے پر اتفاق کیا تھا تاکہ خودکار طریقے سے صارفین سے بلوں کے ذریعے سی پیک کے ماتحت آئی پی پیز کے واجبات کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جاسکے لیکن اسے عملی شکل نہیں دی جاسکی۔

ایک سوال کے جواب میں عہدیدار نے کہا کہ درآمد شدہ کوئلے سے چلنے والے حبکو، ساہیوال اور پورٹ قاسم پاور پلانٹس کو کوئلے کی کسی کمی کا سامنا نہیں ہے، ان تینوں پلانٹس کی مجموعی گنجائش 4 ہزار میگاواٹ ہے۔

ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ 660 میگاواٹ کا تھر کول پاور پلانٹ مقامی کوئلے سے چلتا ہے اور اسے بھی کوئلے کی فراہمی کا مسئلہ نہیں ہے۔

عہدیدار نے وضاحت کی کہ کوئلے سے چلنے والے بجلی کے تمام منصوبے ایندھن کی کم لاگت کی وجہ سے ‘ہائی ڈسپیچ آرڈر’ پر تھے، حکومت ایندھن کی قیمت کی ادائیگی کو یقینی بنارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ مسئلہ گنجائش کی ادائیگی کا ہے اور وہاں بھی حکومت کو کبھی بھی قرض دہندگان کے ڈیفالٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن ایکویٹی پر ریٹرن اسپانسر کی حقیقی توقع ہے لیکن کچھ مسائل کے سبب وقت پر ادائیگی نہیں ہوسکی۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے سی پیک خالد منصور فوری طور پر کچھ ادائیگی یقینی بنانے کے لیے تمام متعلقہ حکام کے ساتھ رابطے کر رہے تھے۔

انہوں نے مزید کہا کہ چینی کمپنیاں بہت ہی صلح جو ہیں اور ایسا کچھ نہیں ہے جس سے لگے کہ ہم ڈیفالٹ کے دہانے پر ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں عہدیدار نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات قائم ہیں اور سی پیک کے تحت آئی پی پیز کے قرضے کے حصے کی دوبارہ پروفائلنگ پر ابتدائی بات چیت ہوئی ہے۔

عہدیدار کا کہنا تھا کہ وہ انتہائی اقدامات یا نوٹس جاری نہیں کرتے بلکہ حکومتی سطح پر معاملات کو حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، ثالثی کچھ نہیں دیتی، کام کے تعلقات اہم ہوتے ہیں۔