مقبوضہ کشمیر کے چار صحافی گرفتاری کے بعد رہا ،پاسپورٹ فون ضبط آر ایس ایف کی صحافیوں کی رہائش گاہوں پر پولیس چھاپوں کی سخت مذمت

سری نگر()مقبوضہ کشمیر پولیس نے صحافیوں کے خلاف کریک ڈاون کے دوران4 صحافیوں کو گرفتاری کے بعد رہا کر دیا ہے تاہم  ان کے پاسپورٹ، فون، اور لیپ ٹاپ، کے علاوہ ہارڈ ڈسک بھی ضبط کر لیے گئے ہیں۔ ہلال میر، شاہ عباس، شوکت موٹا اور اظہر قادری  اور ان کی شریک حیات کے سیل فون اور لیپ ٹاپ سمیت دیگر دستاویزات اور الیکٹرانک آلات بھی ضبط کر لیے گئے ہیں ۔ چاروں صحافیوں کو  بدھ کے روز چھاپوں کے دوران حراست میں لیا گیا تھا تاہم رات گئے انہیں رہا کردیا گیا تھا۔جمعرات کو انہیں مقامی تھانے میں دوبارہ بلایا گیا اور ان سے  سوالات کیے گئے ۔ان میں سے تین صحافی نے غیر ملکی خبر رساں اداروں سے منسلک ہیں جبکہ ایک ماہانہ نیوز میگزین کے ایڈیٹر ہیں۔میڈیا واچ ڈاگ رپورٹرز ود آٹ بارڈرز نے چاروں صحافیوں کی شناخت کشمیر نریٹر میگزین کے ایڈیٹر شوکت مٹہ، ٹی آر ٹی ورلڈ اور ہفنگٹن پوسٹ سے منسلک ہلال میر اور فری لانسر اظہر قادری اور عباس شاہ کے نام سے کی ہے۔رپورٹرز ود آٹ بارڈرز نے اس کارروائی کو دھمکی آمیز رویہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ صحافیوں کی رہائش گاہوں پر پولیس چھاپوں کی سخت مذمت کرتے ہیں۔مقبوضہ کشمیر میں صحافیوں نے طویل عرصے سے زبردست دبا میں کام کیا ہے اور ماضی میں انہیں تشدد کا  نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔صحافیوں کا کہنا تھا کہ بھارت کی جانب سے کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کی منسوخی اور 2019 میں غیرمعمولی لاک ڈان کے دوران خطے کو وفاق کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کیے جانے کے بعد پولیس کی جانب سے ہراساں اور دھمکیاں دینے کے سلسلے میں اضافہ ہوا ہے۔اس دوران بہت سے صحافیوں کو گرفتار کیا گیا، مارا گیا، ہراساں کیا گیا اور بعض اوقات انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت ان سے تفتیش بھی کی گئی۔خطے میں صحافیوں کی منتخب تنظیم کشمیر پریس کلب مستقل بھارتی حکومت پر زور دیتی رہی ہے کہ وہ انہیں آزادانہ رپورٹنگ کی اجازت دے کیونکہ سیکیورٹی ایجنسیاں صحافیوں کو دھمکانے اور پریس کو دبانے کے لیے مختلف اوچھے ہتھکنڈے استعمال کررہی ہیں۔بھارت کی جانب سے اگست 2019 میں خطے کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے فیصلے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں کئی مہینوں تک صحافت پر جمود طاری ہو گیا تھا، بھارت نے گزشتہ سال جون میں ایک متنازع میڈیا پالیسی متعارف کرائی تھی جو حکومت کو آزادانہ رپورٹنگ کو سینسر کرنے کا وسیع تر اختیارات فراہم کرتی ہے۔سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے انتقامی کارروائیوں کے خوف سے زیادہ تر مقامی صحافتی ادارے پریس دبا کا شکار ہیں، صحافی کو اکثر گمنام آن لائن دھمکیوں کی حامل جانچ پڑتال سے گزرنا پڑتا ہے جن کے بارے میں حکومت کا کہنا ہے کہ ان کا تعلق بھارتی حکومت سے لڑنے والے باغیوں سے ہے۔