پاکستانی ہندو خاندان کا قتل: لواحقین کا بھارت سے تحقیقات شیئر کرنے کا مطالبہ

اسلام آباد: بھارت کی ریاست راجستھان میں گزشتہ برس ہلاک ہونے والے ایک ہی خاندان کے 11 پاکستانی ہندوؤں کے اہلخانہ نے بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ واقعہ کی تحقیقاتی رپورٹ پاکستان کے ساتھ شیئر کرے۔

متاثرہ افراد کے اہل خانہ نے بھارتی ہائی کمیشن کے باہر مظاہرہ کیا اور ان ہلاکتوں کی مذمت کی۔

انہوں نے بھارت کی جانب سے واقعے کی تحقیقات میں شفافیت پر تشویش کا اظہار کیا۔

مظاہرین نے بھارتی حکومت پر زور دیا کہ وہ اپنی تحقیقاتی رپورٹ کو فوری طور پر حکومتِ پاکستان کے ساتھ شیئر کرے۔

آل پاکستان ہندو پنچائیت کونسل کے سیکریٹری جنرل اوم پرکاش نارائن نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی انتہا پسند حکومت میں خود ہندو محفوظ نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی حکومت ہندو قوم پرستی کے ذریعے تشدد اور انتہا پسندی کو فروغ دینے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے لیکن یہ پالیسی پوری دنیا میں پرامن ہندو برادریوں کے وقار کو داغدار کررہی ہے۔

اوم پرکاش نارائن نے کہا کہ بی جے پی کے کارکن بھارت میں ہندوؤں کے خلاف آتش گیر حملوں میں بہت زیادہ ملوث تھے۔

انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں کشمیریوں کو قتل کرکے وہاں خونریزی میں ملوث ہے۔

مظاہرین نے بھارت کی جانب سے کشمیر پر مسلسل فوجی قبضے کی بھی مذمت کی۔

اس سے قبل دفتر خارجہ کے ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کہا تھا کہ بھارت میں 11 پاکستانی ہندوؤں کے قتل کے معاملے پر متاثرہ شخص کی بیٹی شری متی مکھی نے پریس کانفرنس میں الزام لگایا کہ بھارتی خفیہ ایجنسی ‘را’ نے ان کے خاندان کو پاکستان مخالف ایجنٹ بننے پر زور دیا تھا۔

زاہد حفیظ چوہدری نے شری متی مکھی کا حوالہ دے کر کہا تھا کہ ‘را’ کا ایجنٹ بننے سے انکار پر پاکستانی ہندوؤں کو قتل کردیا گیا۔

واضح رہے کہ 10 اگست کو ‘بی بی سی’ نے رپورٹ شائع کی تھی کہ بھارت کی ریاست راجستھان میں پاکستان سے ہجرت کر جانے والے ایک ہی خاندان کے 11 افراد ہلاک ہوگئے اور صرف ایک فرد ہی بچ سکا، متاثرہ خاندان 8 سال سے وہاں مقیم تھا۔

رپورٹ کے مطابق ‘8 سال قبل پاکستان سے ہجرت کرکے بھارت میں آباد ہونے والے خاندان کے 11 افراد کی لاشیں راجستھان کے ضلع جودھپور میں ایک کھیت سے ملی ہیں اور خاندان کا صرف ایک فرد ہی زندہ بچ سکا ہے’۔