بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ؟

سچ تو یہ ہے،

بشیر سدوزئی

” بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ” پاکستان دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے یہ بیان اگست 2020ء کے پہلے ہفتے کی پریس بریفنگ میں دیا تھا ۔ اس موقع پر ترجمان نے پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بھی بیک چینل ڈپلو میسی کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ بھارت کی جانب سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے پیش نظر بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی نہیں ہو سکتی۔ مقبوضہ کشمیر میں صورتحال مسلسل بگڑ تی جا رہی ہے۔ بھارت نے گزشتہ ایک سال سے لاکھوں کشمیریوں کو فوجی محاصرے میں رکھا ہوا ہے۔ پوری وادی کو بڑی جیل میں تبدیل کر دیا۔ اس صورت میں بھارت کے ساتھ بیک چینل ڈپلومیسی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دفتر خارجہ کی ترجمان کے بیان پر سنجیدہ حلقوں میں اسی وقت شک و شبہات پیدا ہوئے تھے کہ دال میں کچھ ضرور کالا ہے ورنہ دفتر خارجہ کو بلاوجہ اس بیان کی ضرورت کیوں پیش آئی ۔ لیکن وزیر اعظم عمران خان نے کشمیریوں کو یقین دلایا کہ میں آپ کا سفیر کے طور پر ساری دنیا میں آپ کے مسائل اٹھاوں گا اور آپ کی آواز بنوں گا۔ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں خطاب بھی بہت جذباتی اور بامعنی کیا تھا جس سے کشمیریوں کو یہ آس بندی تھی کہ پاکستان کی موجودہ حکومت اور خاص طور پر وزیراعظم عمران خان کسی بھی سطح پر کشمیر کے عوام اور حریت پسندوں کو مایوس نہیں کریں گے ۔ ترجمان کے بیان کے صرف سات ماہ بعد ہی بیک چینل ڈپلومیسی، فرنٹ چینل ڈپلومیسی کے طور پر نمایاں ہوئی ۔ دونوں ممالک کے درمیان تنازعات کم اور تعلقات بہتر ہو رہے ہیں ۔ سیز فائر لائن پر فائر بندی کی رضامندی، واٹر کمیشن کے سربراہ کا دورہ دلی اور مذاکرات کی کامیابی پر اعتماد کا اظہار ۔ مودی کے دستخط سے ہم منصب کو یوم پاکستان کی مبارک باد کا خط اور طویل تعطل کے بعد کرکٹ سیریز کی بحالی کی اطلاعات کے بعد شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی کہ یہ دو چار دن کی ڈپلومیسی نہیں بلکہ سالوں کا کام ہے ۔ راجہ فاروق حیدر خان زبان کھولنے پر تیار نہیں لیکن ذرائع بتاتے ہیں کہ 5 اگست 2019ء سے تین دن پہلے ہی ان کو بتا دیا گیا تھا کہ بھارت یہ اقدام کرنے والا ہے ۔جب راجہ صاحب نے اس کے ردعمل کے لیے کوئی مثبت تجویز دی تو اس کو مسترد کر دیا گیا ۔قاس کی تصدیق یا تردید راجہ صاحب نہیں کر رہے ۔ لہذا اس حوالے سے بھی شکوک و شبہات پکے ہو رہے ہیں ۔ واقعہ کے بعد جو آنیاں جانیاں ہوئیں اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی تحریک میں تیزی آئی۔ اس کے ساتھ ہی آزاد کشمیر کے اندر سے کچھ غیر سیاسی لیکن صاحب ثروت لوگوں کو سیاست کی طرف دھکیلا جا رہا ہے جو آزاد کشمیر کو بھی صوبہ بنانے کی غیر اصولی اور غیر منطقی تجویز دے رہے ہیں، گویا آزاد کشمیر کا جھنڈا اسی طرح لپیٹ لیا جائے جس طرح سری نگر میں مقبوضہ کشمیر کا سرخ زمین کے ساتھ ہل والا جھنڈا لپیٹا گیا ۔ آزادی کا ترانہ بند کر دیا جائے جو قومی ترانہ گایا جاتا ہے، سپریم کورٹ بند اور وزیر اعظم ہاوس کو وزیر اعلی اور ایوان صدر کو گورنر ہاوس، قانون ساز اسمبلی کو صوبائی اسمبلی میں تبدیل اور خاص اقدام یہ کیا جائے کہ 74 کا عبوری ایکٹ ختم کر کے دستور پاکستان کو نافذ کیا جائے، ایسی تجویز اور قانون سے نابلد ،سیاست سے ناواقف و نو وارد سرمایا داروں کو کیا معلوم کہ آزاد کشمیر کے 1974ء کے ایکٹ کا خاتمہ 1947میں اس حکومت کے اعلان کا خاتمہ ہے اور تحریک آزادی کشمیر کے دعوی سے دست برداری ہے ۔لہذا ایسے موقع پر ایسی تجویز لانا اور بھاری سرمائے کے ساتھ ہیلی کاپٹر پر آزاد کشمیر کے مختلف علاقوں میں گھومنا یہ سرمائے سے عوام کو مرغوب کرنے کی کوشش ہے۔ ممکن ہے اس طرح کے لوگ سرمائے کی بنیاد پر ووٹ خریدنے کی کوشش بھی کریں ۔اگر اس سوچ کے لوگ اسمبلی میں پہنچ گئے تو ایکٹ 1974 پر کاری ضرب لگائیں گے ۔وہ سیاست ضرور کریں لیکن عوام ان سے ہر جلسہ میں حلف لیں کہ آپ کا سیاست میں آنے کا مقصد ایکٹ 74 کے خاتمے کا بیک چینل ڈپلومیسی کا ایجنڈہ تو نہیں ۔ کشمیریوں نے دونوں ممالک کے درمیان تجارت اور دوستی کی کبھی مخالفت نہیں کی۔ خراب تعلقات کا تمام تر اثر کشمیریوں پر پڑتا ہے ۔ علی گیلانی نے بھی تازہ صورت حال کی حمایت کی تاہم انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو اعتماد میں لیے بغیر تعلقات کی بحالی سے کشمیریوں میں مایوسی اور حریت پسندوں کی حوصلہ شکنی ہو گی ۔ مسئلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر خطہ میں امن قائم ہونا ممکن نہیں ۔ پاکستان کے سنجیدہ حلقوں کے لیے یہ بات سوچنے کی ہے کہ کیا بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و ستم بند کر دیا، کیا ٹارچر سیلوں میں بند کشمیری حریت پسندوں کو رہا کیا گیا ہے، کیا بھارت نے 36 لاکھ ڈومیسائل جو غیر کشمیریوں کو جاری کئے منسوخ ہو گئے۔ کیا غیر کشمیریوں کی آباد کاری کے لیے 20 ہزار ایکڑ رقبے پر مکانات اور مختلف علاقوں میں کالونیوں کی تعمیر کا کام رک گیا ۔ اس سب کی موجودگی میں اعتماد سازی کی تحریک کیسے دم پکڑ سکتی ہے ۔ اگر پاکستان کے عوام اس موقع پر اس صورت حال میں کشمیریوں سے منہ موڑ بھی لیتے ہیں تو یہ نقصان خود پاکستان کا ہو گا۔ کشمیریوں کے پاس اب یو ٹرن کی گنجائش ہی باقی نہیں رہی ۔ وہ آزادی کی جدوجہد تو جاری رکھیں گے لیکن ان کو اتنا مایوس نہ کیا جائے کہ کسی اور دروازے پر دستخط دینے پر مجبور ہوں ۔آج کے دشمن کل کے دوست اور آج کے دوست کل کے دشمن بھی ہو سکتے ہیں ۔