ایل او سی پرجنگ بندی پر اتفااقِ رائے سے دونوں اطراف رہنے والی آبادی سکھ کا سانس لے گی۔ امریکی ادارہ جنگ بندی پر اتفااقِ رائے کی وجہ کرونا وائرس عالمی وبا سے دونوں ممالک کی اقتصادی ترقی کی راہ میں مشکلات ہیں وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت کے لیے بیک وقت چین اور پاکستان کیساتھ دو محاذوں پر عسکری تنازعہ جاری رکھنا بہت کٹھن کام تھا

واشنگٹن : واشنگٹن میں قائم امریکی تحقیقی ادارے نے کہا ہے کہ ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایل او سی  پرجنگ بندی پر اتفااقِ رائے سے ایل او سی کے دونوں طرف  رہنے والی آبادی سکھ کا سانس لے گی۔ اس  اتفااقِ رائے  کی  وجہ یہ بھی ہے کہ  نئی دہلی میں اس بات کا احساس ہے کہ بھارت کے لیے بیک وقت چین اور پاکستان کیساتھ دو محاذوں پر عسکری تنازعہ جاری رکھنا بہت کٹھن ہے۔ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ  لداخ میں جاری چین کے ساتھ کشیدگی کے باعث وہ دوسرے بارڈر پر مسلسل عسکری تنا وکا متحمل نہیں ہو سکتا اور یہ کہ اسے چین کے ساتھ حالات کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔ وی او اے کے مطابق پاکستان اور بھارت کے درمیان حال ہی میں کشمیر پر طے پانے والے جنگ بندی معاہدہ خطے کو درپیش چیلنجز کے حوالے سے دونوں ممالک کے لئے کتنا فائدہ مند ثابت ہو گا؟۔۔ اس بارے میں واشنگٹن کے ایک تحقیقی ادارے اسٹمسن سینٹر میں جنوبی ایشیا کے عسکری اور دفاعی ماہرین نے ایک آن لائن مکالمے کا اہتمام کیا۔ماہرین کا کہنا تھا کہ تنازعات سے دوچار خطے میں کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی پر کاربند ہونے کی اس پیش رفت کے پیچھے جو چیدہ چیدہ عوامل کارفرما رہے ہیں ان میں کووڈ نائیٹین کے دونوں ممالک کی معیشتوں پر اثرات اور بھارت اور چین کے درمیان لداخ کے مقام پر ہونے والی جھڑپیں اور اس سے پیدا ہونے والی کشیدگی شامل ہیں۔یاد رہے کہ پاکستان اور بھارت نے نومبر 2003 میں کشمیر کی لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ کیا تھا جس کے بعد دونوں ملکوں میں مذاکرات بھی ہوئے۔ گزشتہ کچھ سالوں سے دونوں جوہری ہتھیاروں سے لیس ہمسایہ ملکوں میں کشیدگی بڑھ گئی۔ اب دونوں ممالک میں اس معاہدے کی پاسداری پر اتفاق ہوا ہے تو ماہرین کو کچھ امید ہوئی ہے کہ اس سے ایل او سی کے دونوں اطراف رہنے والی آبادی سکھ کا سانس لے گی۔ لیکن اب بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس اتفاق کے بعد دونوں ملک امن مذاکرات کی راہ اختیار کریں گے۔اس موقعے پر گفتگو میں شریک امریکی مصنف ریٹائرڈ کرنل ڈیوڈ سمتھ نے پاکستانی اور بھارتی افواج پر لکھی گئی اپنی دو کتابوں کوئٹہ ایکسپیریئنس اور ویلنگٹن ایکسپیریئنس کے مندرجات کا ذکر کیا۔ جنگ بندی پر کاربند رہنے کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے مابین اتفاق رائے پر تبصرہ کرتے ہوئے کرنل ریٹائرڈ ڈیوڈ سمتھ نے انڈیا کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی کتاب کا حوالہ دیا اور کہا کہ بھارت یہ سمجھتا ہے کہ جب چین کی طرف سے اس پر دبا بڑھ جائے تو پاکستان کے دبا کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے طاقت کی اس سیاست کو ایک کلاسیکی مثال قرار دیا۔پاکستان کے حوالے سے کرنل سمتھ نے کہا کہ اسلام آباد کے نزدیک اقتصادی مسئلہ بہت اہم ہے اور ایسے وقت میں جب حکومت کو حزب اختلاف کی جانب سے سیاسی دبا کا بھی سامنا ہے تو حکومت کو موضوع بدلنے کی ضرورت ہے جس میں امن، اور بھارت کے ساتھ تجارت اور کاروبار کے امکانات شامل ہوں۔بھارتی محقق اکریتی واسودیوا کے ایک سوال پر بات کرتے ہوئے پاکستانی عسکری ماہر ریٹائرڈ بریگیڈیئر نعیم سالک کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی عالمی وبا نے دونوں ممالک کی اقتصادی ترقی کی راہ میں مشکلات پیدا کر رکھی ہیں جو کہ جنگ بندی پر اتفااقِ رائے کے پیچھے ایک اہم وجہ بنی ہے۔ ان کے نزدیک اہم ترین عوامل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ نئی دہلی میں اس بات کا احساس ہے کہ بھارت کے لیے بیک وقت چین اور پاکستان کیساتھ دو محاذوں پر عسکری تنازعہ جاری رکھنا بہت کٹھن ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت یہ سمجھتا ہیکہ لداخ میں جاری چین کے ساتھ کشیدگی کے باعث وہ دوسرے بارڈر پر مسلسل عسکری تنا کا متحمل نہیں ہو سکتا اور یہ کہ اسے چین کے ساتھ حالات کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔اس آن لائن ایونٹ میں شریک قائداعظم یونیورسٹی میں دفاع اور سٹریٹیجک امور کی لیکچرار سعدیہ تسلیم نے کہا کہ سن 2003 کے ایل او سی کے معاہدے پر اتفاق خوش آئند ہے لیکن یہ بجائے خود امن کے حصول کے تناظر میں ناکافی رہے گا ۔ انہوں نے کہا کہ حالات میں بہتری لانے کے حوالے سے دوسرے اقدامات کی غیر موجودگی میں یہ اتفاق بے معنی ہو کر رہ جائے گا۔سعدیہ تسلیم کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے عسکری امور کے ماہر نعیم سالک نے کہا کہ سن 2003 میں جب جنگ بندی معاہدہ کیا گیا تو اس کے بعد دونوں ممالک نے مذاکرات کا آغاز کیا۔ اور اب بھی ایسا ہی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ کچھ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ اسلام آباد اور نئی دہلی اپنے اپنے سفیروں کو ایک دوسرے کے ملکوں میں واپس بھیجنے کی بات کر رہے ہیں۔نئی دہلی سے جامع ملیہ اسلامی یونیورسٹی سے وابستہ ایسوی ایٹ پرو فیسر ریشمی قاضی نے بھارت اور پاکستان میں جنگ بندی کے معاہدے پر عمل کے اتفاق کو دونوں ممالک میں تنازعہ سے نمٹنے کی ایک کوشش سے تعبیر کیا۔ ان کے مطابق کووڈ نائیٹین، معیشت اور چین بھارت تنا کے پیش نظر اس احساس موجود ہے کہ خطے میں پر تشدد کاروائیوں کو زیادہ نہیں بڑھنے دینا چاہیے۔انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے یہ ایک اسٹریٹیجک قدم ہے کہ اگر چین کے ساتھ ایک بارڈر پر کشیدگی ہے تو پاکستان کے ساتھ دوسرے بارڈر پر حالات کو بے قابو نہیں ہونے دینا چاہئیے۔ورچوئل ایونٹ میں شریک بھارتی مبصر اور انٹیلی جنس، پراپیگنڈہ، سیکیورٹی سٹڈیز نامی جریدے کی شریک ایڈیٹر ادیتی ملہوترا نے کہا کہ موجودہ حالات اور چیلنجز کی موجودگی میں کشمیر میں جنگ بندی کے معاہدے کی بحالی بھارت اور پاکستان دونوں کے لئے بہترین راہ ہے۔