امریکا نے امن معاہدے کی پاسداری نہ کی تو اس کے سنگین نتائج ہونگے.طالبان کا انتباہ

معاہدے کے تحت امریکہ اور اتحادی افواج، غیر سفارتی عملہ، کانٹریکٹرز، ٹرینر اوردیگر سیکورٹی اہلکار افغانستان سے نکل جائیں .طالبان کی جانب سے معاہدے کا ایک سال مکمل ہونے پر بیان

کابل: طالبان نے امریکہ اور اس کی اتحادی افواج پر زور دیا ہے کہ ایک سال قبل طے پانے والے امن معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے یکم مئی تک افغانستان سے نکل جائیں جنگجو گروپ نے خبردار کیا ہے کہ انخلا کے علاوہ کوئی بھی دوسری راہ اپنائی گئی تو ایسا کرنے والوں کو ماضی کی طرح پھر ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا.
امریکہ اور طالبان کے درمیان امن معاہدے کا ایک سال مکمل ہونے پر اپنی ویب سائٹ پر جاری کیے گئے بیان میں طالبان نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے اس معاہدے پر مکمل عمل کیا اور دو دہائیوں سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے سنجیدہ کوششیں کیں امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ، ٹرمپ دور میں طے پانے والے اس معاہدے کا جائزہ لے رہی ہے جب کہ افغانستان میں تعینات باقی ماندہ 2500 فوجیوں کی واپسی کا معاملہ بھی ابھی زیرِالتوا ہے.امریکہ کی اتحادی نیٹو افواج کے بھی 10 ہزار کے لگ بھگ فوجی افغانستان میں موجود ہیں جس کے سربراہ بھی انخلا کا کوئی شیڈول دینے پر رضا مند نہیں امریکی انتظامیہ نے امن معاہدے کے جائزے کا فیصلہ ایسے وقت میں لیا تھا جب طالبان پر یہ الزامات لگ رہے تھے کہ وہ پرتشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور معاہدے کے برعکس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے خطرہ القاعدہ اور دیگر شدت پسند تنظیموں کے ساتھ رابطے میں ہیں.طالبان ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے ان الزامات کو امن معاہدے کے مخالف بعض افغان دھڑوں اور غیر ملکی قوتوں کی سازش قرار دیتے رہے ہیں خیال رہے کہ افغان حکومت اس امن معاہدے کی فریق نہیں تھی اور معاہدے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے طالبان جنگجوﺅں کی رہائی کے فیصلے پر تحفظات کا اظہار کیا تھا. طالبان نے اپنے بیان میں خبردار کیا کہ دوحہ معاہدے نے افغانستان میں حقیقی امن کے قیام کی راہ ہموار کی تھی تاہم اسے چھوڑ کر کوئی بھی متبادل راستہ اپنانے کی کوشش کی گئی تو وہ پہلے کی طرح اس بار بھی ناکام ہو گا بیان میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ معاہدے کے 14 ماہ کے اندر افغانستان میں تعینات امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی افواج، غیر سفارتی عملہ، کانٹریکٹرز، ٹرینر اور سیکیورٹی سے متعلق دیگر اہلکار افغانستان سے نکل جائیں گے.بیان میں کہا گیا ہے کہ معاہدے کے تحت امریکی فوج کے کئی اہلکار افغانستان سے چلے گئے ہیںلہذٰا باقی ماندہ امریکی فوجی اور دیگر افواج کو بھی مقررہ ڈیڈ لائن سے قبل افغانستان سے نکل جانا چاہیے طالبان نے زور دیا کہ اقوامِ متحدہ کی سیکیورٹی کونسل، بین الاقوامی مبصر اور وہ ممالک جو 29 فروری 2020 کی دستخطی تقریب میں موجود تھے انہیں امریکہ پر معاہدے کی پاسداری کے لیے دباﺅ ڈالنا چاہیے.امریکی حکام یہ اعتراف کرتے ہیں کہ معاہدے کے بعد کوئی امریکی فوجی افغانستان میں ہلاک نہیں ہوا تاہم افغان فوجی مشن کے مطابق معاہدے سے قبل افغان جنگ کے دوران 2400 امریکی فوجی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے تھے امریکہ اور طالبان نے گزشتہ سال 29 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے کئی ادوار کے بعد امن معاہدے پر دستخط کیے تھے. معاہدے کے تحت امریکہ نے افغان جیلوں میں قید طالبان جنگجوﺅں کی رہائی سمیت مئی 2021 تک افغانستان سے امریکی اور اتحادی فوج کے مکمل انخلا پر اتفاق کیا تھا طالبان نے امریکہ کو یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ افغان سرزمین کو امریکہ یا اس کے اتحادی ملکوں کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے.طالبان نے یہ بھی یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ القاعدہ سمیت افغانستان میں دیگر دہشت گرد گروپوں سے روابط بھی نہیں رکھیں گے ابتداافغان حکومت نے اس معاہدے خصوصاً سنگین جرائم میں ملوث طالبان قیدیوں کی رہائی پر تحفظات کا اظہار کیا تھا لیکن امریکہ کی مداخلت کے بعد طالبان جنگجوﺅں کا رہا کر دیا گیا تھا.