پاکستان کو آزاد ہوئے 73 سال ہو چکے ہیں اور جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی سن رہا ہوں کہ پاکستان نازک حالات سے گذر رہا ہے ۔ لیکن آج تک بحیثیت قوم ہم اس سوال کا جواب تلاش نہیں کر پائے کہ کیا وجہ ہے کہ یہ نازک حالات حتم ہونے کو نہیں آ رہے ۔ ہم یہ بھی معلوم نہیں کر پائے کہ ہمارے قوم کا اصل مسلہ کیا ہے ۔ کیوں کہ ابھی تک ہم نے اپنی سمت کا تعین ہی نہیں کیا ہے ۔ بحیثیت قوم ابھی تک اس بات پر بھی متفق نہیں ہو سکے ہیں کہ ہمارا ملکی نظام جمہوری ہو گا یا اسلامی ؟ ملک میں اختیار سیاستدانوں کے پاس ہو یا ایک ادارے کے پاس ؟ اور جب تک ہم بحیثیت قوم اپنی سمت کا تعین نہیں کریں گے ہمارے حالات ایسے ہی رہیں گے ۔ حکومت دو چیزوں پر چلتی ہے۔ ایک سیاست پر اور دوسرے گورننس پر۔ ان دونوں میں توازن قائم نہ رہے تو معاملات کسی بھی وقت قابو سے باہر نکل جاتے ہیں۔ہمارے ہاں نہ تو گورننس ہو رہی ہے اور نہ ہی سیاست جس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہوا ہے ۔ ہمارے نظام میں سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کو کمزور رکھنے کی پالیسی اختیار کی گئی ۔ ایسی ریاست جو اپنے سیاستدانوں کو صرف اس لیے بونے بنا کر رکھتی ہے تاکہ وہ اطاعت شعار رہیں، اسے یاد رکھنا چاہیے کہ چھوٹے لوگوں سے کوئی بڑا کام نہیں لیا جا سکتا، جب اندرونی سیاسی قیادت کمزور ہوتی ہے تو وہ ملکی معملات پر توجہ نہیں دے سکتے۔ یہی وجہ ہے جو بھی سیاسی جماعت حکومت میں ہو وہ بجائے گورننس کےاس فکر میں رہتے ہیں کہ اپنی حکومت کو کیسے بچائے ۔ بجائے حکومت اپنی کارکردگی پر توجہ دے، سنگین تر ہوتے معاشی بحران کے حل پر غور کرے، فعال پارلیمان اور موثر جمہوری نظام کی تکمیل کرے، محض اپوزیشن کے خلاف کاروائیوں پر اکتفا کیے ہوئے ہے۔ جبکہ اپوزیشن اس کوشیش میں کہ کیسے حکومت نہیں آیا جائے ۔ اور ہم اس دائرے سے باہر نہیں نکل پاتے۔ عوام ، ملک اور گورننس بارے کوئی نہیں سوچتا۔ ایک آزاد جمہوری حکومت اور پارلیمنٹ ہماری سیکیورٹی ایسٹبشلمنٹ کو کھبی قبول نہیں رہی کیونکہ وہ ان کی کارگردگی اور اخراجات پر سوال اٹھاتی ہے۔ اصل میں یہ سیاستدانوں کی انتظامی ،سیاسی، سماجی، معاشی نا بالغی اور نا سمجھی ہی اسکو لانے والوں کو درکار ہوتی تھی ۔ ایسٹبشلمنٹ کا کردار ہمیشہ کمزور سیاسی قیادت کی وجہ سے بڑھا۔ اور ایسٹبشلمنٹ کا مفاد ہمیشہ کمزور سیاسی قوت ہی ہوتی ہے ۔ گزشتہ73 سالوں میں فیصلہ کُن قوتوں نےاپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیےجتنی توانائیاں ہربارنظام بدلنے پر لگائی ہیں اگر اس سے آدھی توانائیاں عوام کے حالات بدلنے پر لگائی ہوتیں تو آج پاکستان اپنےخطے کے ممالک میں سب سے پیچھے کی بجائے سب سے آگے کھڑا ہوتا ۔ سیاستدانوں کی کمزوری میں انکا اپنا بھی ہاتھ ہوتا ہے ۔ یہ کہنا آسان ہے که پچھلے 73 سالوں سے فوج ہم پر حکمرانی کر رہی ہے ۔ لیکن کھبی سوچا ہے که کیوں ؟ اس کی وجہ یہ سیاستدان ہے یہ سیاستدان ہی انکے لئے جگہ بناتے ہیں انکے لئے قانون بناتے ہیں اور انھیں مزید مظبوط بناتے ہیں اور انکے ہاتوں میں کٹھ پتلی بنتے ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جمہوریت کا سب سے اہم عنصر سیاسی جماعتیں خود اندرونی جمہوریت کو اہمیت دینے کے لیے تیار نہیں۔ اس وقت صورتِ حال یہ ہے کہ شاید ہی پاکستان کی کوئی سیاسی جماعت اپنی تنظیم کے اندر جمہوری کلچر کی موجودگی کا ایسا دعویٰ کرسکے جس کو سب تسلیم کرنے پر آمادہ ہوں۔ ملک کی بڑی اور ملک گیر سیاسی جماعتیں جمہوری رویوں کے حوالے سے سب سے پیچھے نظر آتی ہیں، خواہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (نواز) ، یا پھر تحریک انصاف، ان میں سے کوئی بھی جماعت خود اپنے آئین میں درج کی گئی شقوں پر عمل کرتی نظر نہیں آتی۔ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں نظریات سے زیادہ شخصیات زیادہ اہم ہیں ۔ اکثروبیشتر، پارٹی کے سربراہ اور ان کے قریبی رشتہ دار انتخابات سے پہلے اور بعد میں پارٹی کے اوپر اپنی آہنی گرفت برقرار رکھتے ہیں- جبکہ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی بھی ملک کی معیشت مضبوط ہو تو اس کی بات دنیا میں اچھی طریقے سے سنی جاتی ہے ۔ معیشت کی مضبوطی کا دارومدار ملک کے سیاسی استحکام سے ہوتا ہے ۔ پاکستان سے رقبہ اور ابادی میں بہت سے چھوٹے ملک دنیا کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رھے ہیں ان قوموں نے ترقی کے حصول کے لئے علم پر مبنی معیشت کو فروغ دیا سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کے بغیر کوئی قوم ترقی یافتہ قوم نہیں کہلا سکتی۔ اب جنگ معیشت کی ہے، ہتھیاروں کی نہیں۔ پیسے ہوں تو سائنس ٹیکنالوجی ہتھیار سب آ جاتے ہیں۔ پاکستان جغرافیائی طور پر مشرق وسطی سے لے کر ہندوستان اور چین تک اور ہندوستان سے وسط ایشیاء تک روایتی کاروباری مراکز کے سنگم پر موجود ہے۔ پاکستان کے لئے منطقی بات یہ ہے کہ وہ معاشی اور کاروباری نمو کے لئے اپنے جغرافیائی محل وقوع کے فوائد کو استعمال کرے مگر پاکستان کے اصل حکمران عناصر کا زور ہمیشہ جغرافیائی صورتحال کے دفاعی پہلو پر مرکوز رہا ہے اس حوالے سے سماجی و سیاسی اور سماجی و اقتصادی حالات کے تناظر پر شاید ہی کبھی کوئی توجہ دی گئی ہے۔ عالمی سیاست کے سینے میں نہ تو دل ہوتا ہے اور نہ ہی ضمیر، یہ صرف مفادات کے گرد گھومتی ہے، پاکستان کے حکمران طاقتور ادارے کب سمجھیں گے ؟؟؟ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں ہماری عزت ہو . تو ہم کو اپنی ترجیحات کا از سرے نو جایزہ لینا پڑے گا . ہمیں اپنی سمت کا تعین کرنا پڑے گا ۔ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنا ہو گا۔ آج ملک جس حالات سے گذر رہا ہے سوال ان سے بنتا ہے جن کے پاس 73 سال سے اختیارات ہیں۔ جن کے پاس طاقت ہے ۔ ملک کی موجودہ صورتحال کی ذمہ دار صرف اور صرف ایک ادارہ ہے ۔ اس ادارے کے افراد اب پاکستان کے تمام اداروں پر قابض ہیں ۔ سیاسی پارٹیاں اور لیڈر تک یہ بناتے ہیں ۔ تقریبا تیس سال سے زائد تو جرنیلوں نے براہ راست حکومت کی اور باقی کے 40 سال بھی ان ہی کی چھتری کے نیچے ان ہی کی مرضی کے حکمراں نصب کیے گئے۔ جس نے سویلین بالادستی کی کوشش کی اس کا حشر سب نے دیکھا۔ کوئی ایک وزیراعظم اپنی مدت پوری نہیں کرسکا۔ مگر گالی تو کمزور کو ہی دی جاسکتی چونکہ طاقت ور کے ہاتھ میں بندوق جو ہوتی ہے۔ لہذا جب تمام احتیارات اور ادارے انکے کنٹرول میں ہے تو پھر جواب بھی ان ہی سے بنتا ہے. دنیا کی وہ افواج ہمیشہ بہتر پوزیشن میں ہوتی ہے جنکی عوام انکے پیچھے کھڑی ہو ۔ ہمارے ہاں عوام اسلئے پیچھے نہیں کھڑی کیوں کے ادارے نے انکو اگے لگایا ہوا ہے ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ سب کچھ کب تک چلے گا اور کس قیمت پر ؟ ہم کو بحیثیت قوم اپنی ترجیحات اور سمت کا تعین کرنا پڑے گا . ہم کہاں تھے، کہاں ہیں اور کہاں کھڑے ہوں گے؟ کبھی سوچا کہ ہم ماضی سے سبق سیکھنے کی بات کرتے ہیں اور پھر ماضی کو ہی فراموش کر دیتے ہیں، ماضی کی غلطیوں کو نہ دہرانے کے وعدے کرتے ہیں اور دانستہ نادانستہ غلطی در غلطی کرتے چلے آ رہے ہیں ۔