کورونا کے مریضوں میں مختلف علامات : سائنسدانوں کا بڑا انکشاف

ایک طرف تو دنیا بھر کے سائنسدان کرونا وائرس کی ویکسینز پر کام رہے ہيں لیکن ساتھ ہی ایسے کئی سائنسدان ہیں جو یہ معلوم کرنے کی کوشش کر رہے ہيں کہ یہ بیماری ہر کسی کو مختلف طریقے سے کیوں متاثر کرتی ہے؟

اس کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ جسم کے مدافعتی سیلز کرونا وائرس کی وجہ بننے والے سارس کوویڈ ٹو وائرس کا مقابلہ کس طرح کرتے ہيں۔

مطالعاتی رپورٹ میں بتایا گیا گیا ہے کہ لاہویا انسٹی ٹیوٹ فار امیونولوجی، یونیورسٹی آف لورپول، اور یونیورسٹی آف ساؤتھ ہیمپٹن سے وابستہ متعدد سائنسدانوں کی ایک مشترکہ تحقیق سے اس سوال کا جواب سامنے آیا ہے۔

ان سائنسدانوں کو یہ معلوم ہوا ہے کہ کرونا وائرس کے ابتدائی مراحل کے دوران جن مریضوں میں یہ مرض شدت کی شکل اختیار کرتا ہے، ان کے اجسام میں ٹی سیلز کی ایک خاص قسم پیدا ہونا شروع ہوجاتی ہے جس میں جسم کے مدافعتی بی سیلز کو ختم کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے اور جو اینٹی باڈیز کی تخلیق میں خلل انداز ہوتا ہے۔

سائنسی جریدے سیل میں اکتوبر کے مہینے میں شائع ہونے والی یہ تحقیق سنگل سیل آر این اے سیکوئینسنگ نامی ایک جدید تکنیک کے فوائد کو بھی اجاگر کرتی ہے۔

انفرادی سیلز پر ایک تفصیلی نظر

اس تحقیق پر کام کرنے والے لا ہویا انسٹی ٹیوٹ کے ایسوسی ایٹ پروفیسر بینڈورنگن وجے آنند بتاتے ہيں کہ اس تحقیق میں سنگل سیل آر این اے سیکوئینسنگ کے ذریعے ٹی سیلز میں شامل ان آر این اے مالیکیولز کا تجزیہ کیا گیا ہے جو سارس کوویڈ ٹو وائرس کی نشاندہی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہيں۔

یہ مطالعہ اس وجہ سے اہم ہے کیونکہ ہمیں پہلی بار اس وائرس کے خلاف ردعمل ظاہر کرنے والے سیلز کی نوعیت سمجھنے کا موقع ملا ہے۔

وجے آنند کے ساتھ اس تحقیق پر کام کرنے والے یونیورسٹی آف لورپول کے پروفیسر اور لاہویا انسٹی ٹیوٹ کے ایڈجنکٹ پروفیسر کرسچن ایچ اوٹنسمائیر کہتے ہيں کہ یہ تو صرف ابتداء ہے۔

ہمیں مستقبل میں منعقد ہونے والے مطالعوں کے لیے ایک بنیاد درکار تھی اور اس تحقیق کے نتائج صحیح وقت پر سامنے آئے ہيں۔ یہ اپنے طرز کی پہلی تقحقیق ہے جس پر آگے چل کر کوئی بھی کام کرسکتا ہے۔

وجے آنند اور لاہویا انسٹی ٹیوٹ میں ان کی ٹیم نے امیونولوجی کے شعبے میں سنگل سیل آر این اے سیکوئینسنگ کی بنیاد رکھی ہے.

جس سے سائنسدادوں کو جین کے اظہار کے ان پیٹرنز کا مطالعہ کرنے کا موقع ملتا ہے جن کے باعث ہر کسی کا وائرس کے خلاف ردعمل مختلف ہوتا ہے۔

اکتوبر میں منعقد ہونے والی اس تحقیق میں ریسرچرز نے انفیکشن کے مقابلے میں اہم کردار ادا کرنے والے سی ڈی فور پلس ٹی سیلز کا انتخاب کیا۔

سی ڈی فور پلس لاہویا انسٹی ٹیوٹ میں پی ایج ڈی پوسٹ داکٹرل فیلو بینجامن میکف جنہوں نے وجے آنند اور اوٹنسمائیر کے ساتھ اس تحقیق پر کام کیا ہے۔

وہ کہتے ہيں کہ سی ڈی فور پلس ٹی سیلز ہمارے نظام مدافعت کو منظم کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہيں۔ یہ مدافعتی سیلز کا ایک مجموعہ ہے جو کئی مختلف قسم کے کام انجام دیتا ہے، اور ہم یہ جاننے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ وہ سارس کوویڈ ٹو وائرس کا مقابلہ کس طرح کرتے ہيں۔

وجے آنند اور آٹنسمائیر نے یہ تحقیق اس سال کی ابتداء میں شروع کی تھی، اور اس وقت ان کا ارادہ آر این اے سیکوئینسنگ کی مدد سے نزلے کے باعث ہسپتال میں بھرتی ہونے والے مریضوں سے حاصل کردہ سی ڈی فور پلس ٹی سیلز کا تجزیہ کرنا تھا۔

کرونا وائرس کے زور پکڑنے کے بعد انہوں نے مارچ میں کوویڈ19کے مریضوں سے نمونوں کے حصول کے لیے منطوری کی درخواست دے دی۔

وجے آنند کہتے ہيں کہ جیسے ہی کرونا وائرس نے وبا کی شکل اختیار کرنا شروع کی، ہم نے نمونے حاصل کرنا شروع کردیے تھے۔ ریسرچرز نے دو مختلف گروپس سے تعلق رکھنے والے چالیس کوویڈ کے مریضوں کے نمونوں کا مطالعہ کیا۔

پہلا گروپ ہسپتال میں داخل ہونے والے22 مریضوں پر مشتمل تھا (جن میں سے نو افراد آئی سی یو میں تھے) اور دوسرا گروپ کوویڈ19 کے شکار18 افراد پر مشتمل تھا جنہيں ہسپتال میں بھرتی کرنے کی ضرورت نہيں تھی۔

اس کے بعد وجے آنند اور ان کی ٹیم نے ان تمام مریضوں میں سارس کوویڈ ٹو وائرس کا مقابلہ کرنے والے ٹی سیلز کے تجزیے کے لیے سنگل سیل آر این اے سیکوئینسنگ کا استعمال کیا۔

ہر ٹی سیل وائرسز کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف طریقے سے کام کرتا ہے۔ مثال کے طور پر معاون ٹی سیلز صرف جسم کو کسی انفیکشن کے متعلق مطلع کرتے ہيں جس کے بعد مزيد مدافعتی سیلز حرکت میں آجاتے ہيں۔

کچھ سیلز (جنہیں ٹی ایف ایچ سیلز کہا جاتا ہے) اینٹی باڈیز بنانے والے بی سیلز کو فعال کرتے ہيں۔ بعض ٹی سیلز ممکنہ طور پر صحت مند ٹشو پر حملہ آور ہونے والے دوسرے ٹی سیلز کے کام میں خلل انداز ہوتے ہيں۔

وجے آنند کہتے ہيں کہ مختلف اقسام کے ٹی سیلز اس وائرس کا مقابلہ کرتے ہیں۔تاہم اس مطالعے پر کام کرنے والے ریسرچرز کے مطابق اس وقت یہ بات یقین سے نہيں کہی جاسکتی کہ ٹی سیلز اس بیماری کی شدت میں اہم کردار ادا کرتے ہيں۔ وہ اعتراف کرتے ہيں کہ اس وقت مزيد تحقیق کی ضرورت ہے۔

مثال کے طور پر ان سائنسدانوں کو معلوم ہوا کہ ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کے اجسام میں نقصان دہ ٹی ایف ایچ سیلز کی تعداد زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث انفیکشن مزید شدت اختیار کرتا ہے۔

عام طور پر ٹی ایف ایچ سیلز جسم میں اینٹی باڈیز بنانے والے بی سیلز کو معاونت فراہم کرتے ہيں لیکن بیماری کی حالت میں وہ بعض دفعہ ٹھیک طرح کام نہيں کر پاتے اور بی سیلز کو ختم کرنا شروع کردیتے ہیں۔

اس کے بعد ریسرچرز نے مریضوں میں سارس کوویڈ ٹو وائرس کے لیے مخصوص اینٹی باڈیز کا تجزيہ کیا، جس کے نتیجے میں انہيں معلوم ہوا کہ جن افراد میں ٹی ایف ایچ سیلز درست طور پر کام نہيں کررہے تھے، ان کے جسم میں اینٹی باڈيز کی تعداد بہت کم تھی۔

تحقیق کی بنیاد

میکف کہتے ہيں کہ ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کو دیکھ کر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان کے ٹی ایف ایچ سیلز درست طور پر کام نہيں کر پارہے، جس کے باعث ان کے بی سیلز اینٹی باڈيز بناننے سے قاصر ہیں۔

میکف، وجے آنند اور آٹنسمائیر کے ساتھ لاہویا انسٹی ٹیوٹ میں کام کرنے والے بائیو انفارمیٹکس کے ماہر سیرو ریمیریز سواستگی کہتے ہيں کہ اس کام میں تاخیر کی کوئی گنجائش نہيں تھی۔ یہ بہت ضروری تھا کہ ہر کسی کو ڈيٹا فراہم کیا جاسکے۔

ان ریسرچرز کے مطابق اس وقت مزيد تحقیق کی ضرورت ہے لیکن انہیں اس بات پر یقین ہے کہ ان کی تحقیق وبائی امراض کے علاوہ دوسرے شعبہ جات میں بھی مفید ثابت ہوسکتی ہے۔

آٹنسمائیر بتاتے ہيں کہ اگر ہم یہ سمجھنے میں کامیاب ہوجائيں کہ ہمارا جسم وائرسز کا مقابلہ کس طرح کرتا ہے تو کینسر کی لیے امیونوتھیراپیز، یعنی ادویات کے بجائے جسم کے اپنے قوت مدافعت استعمال کرتے ہوئے کینسر سیلز کو ختم کرنے کی کوششوں کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

آٹنسمائیر کہتے ہيں کہ اس مطالعے کی بدولت ہم نے انسانی جسم کا ایک دیرینہ معمہ حل کیا ہے۔ آگے چل کر ہم اس ریسرچ سے حاصل کردہ نتائج سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ جان سکیں گے کہ کینسر کا شکار ہونے کی صورت میں ہمارے ٹشوز میں کیا ہوتا ہے۔