انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں زمین خریدنے کی اجازت: ’دلی نے کشمیر کو برائے فروخت رکھ دیا‘

انڈیا کی حکومت کا دعویٰ تھا کہ کشمیر کی نیم خودمختار حیثیت کو ختم کرنے اور ریاست کو وفاق میں مکمل طور پر ضم کرنے سے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں خوشحالی، امن اور ترقیوں کا نیا دور شروع ہو جائے گا تاہم گذشتہ ایک سال سے کشمیر میں حکومتِ ہند کے اعلانات سے اضطراب پھیلتا رہا ہے۔

تازہ اعلان زمینوں کی خریداری سے متعلق کیا گیا اور پہلے سے موجود جائیداد سے متعلق قوانین میں ترمیم کر کے اب انڈیا کے ہر شہری کو کشمیر میں غیرزرعی زمین خریدنے کا اہل قرار دیا ہے تاہم حکومت زرعی زمینوں کو ‘مفاد عامہ’ کے لئے استعمال کرسکتی ہے۔

اس سے قبل فوج کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ کسی بھی علاقے یا قطعہ ارض کو ‘سٹریٹجک’ یعنی تذویراتی اہمیت کا حامل قرار دے کر اسے اپنے قبضے میں لے سکتی ہے۔

اس اعلان سے حالیہ دنوں میں ہندنواز سیاسی جماعتوں کی طرف سے فاروق عبداللہ کی سربراہی میں بنائے گئے ’پیپلز الائنس‘ نامی اتحاد کو شدید دھچکہ لگا ہے اور اس اتحاد کے دو کلیدی رہنماوں، عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی نے اس فیصلے کو عوام دشمن قرار دیا ہے۔

عمرعبداللہ نے اسی حوالے سے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا: ’نئی دہلی نے جموں کشمیر کو برائے فروخت رکھ دیا ہے اور حد یہ ہے کہ حکومت نے لداخ میں ہِل کونسل انتخابات کا انتظار کیا تاکہ لداخ کو بھی اب فار سیل قرار دیا جاسکے۔’

کم و بیش ایسے ہی الفاظ کا استعمال کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا ‘جموں کشمیر کو لوٹنے کے انتظامات کئے جا رہے ہیں تاکہ کشمیری عوام مزید بےاختیار اور بے دست و پا ہو جائے۔’

دلچسپ بات ہے کہ اس اعلان کے چوبیس گھنٹے بعد ایک معروف اخبار اور انسانی حقوق کے لئے سرگرم بعض انجمنوں کے دفاتر پر نیشنل انوسٹگیشن ایجنسی یعنی این آئی اے کے اہلکاروں نے چھاپے مارے۔ این آئی اے ملک میں دہشت گردی کے لئے غیرملکی فنڈنگ کی روک تھام کے لئے بنائی گئی ہے جسے عدالتی اختیارات بھی حاصل ہیں۔

کشمیر

نئے قانون کا پس منظر

گذشتہ برس تک انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے حوالے سے آئین کے آرٹیکل 370 میں ایک شق تھی جس میں زمین خریدنے کے لیے ‘کشمیر کا مستقل شہری’ ہونا ایک لازمی شرط تھی تاہم اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد جو نیا قانون آیا ہے اس میں اس شق کو ہٹا دیا گیا ہے۔

حکومت کا موقف رہا ہے آرٹیکل 370 نے کشمیر میں ترقی کی راہ کو مسدود کر رکھا تھا کیونکہ سرمایہ کار وہاں پانچ اگست سنہ 2019 سے قبل زمین نہیں خرید سکتے تھے۔

یہ انتظام اس خطے کی متنازع حیثیت کے علاوہ نسلی شناخت کے تحفظ کے پیش نظر کیے گئے تھے۔ اس طرح کے انتظامات کئی شمال مشرقی ریاستوں بھی ہیں جہاں دوسری ریاستوں کے لوگ زمین نہیں خرید سکتے ہیں تاکہ وہاں کی آبادی کا تناسب اور تشخص نہ بدلے۔

کشمیری سیاستدانوں کا ردعمل

یاد رہے کہ انڈیا کی حکومت کے اعلانات پر اکثر کشمیر اور جموں میں مختلف ردعمل سامنے آتا ہے تاہم لینڈ لاز یعنی جائیداد کے حوالے سے قوانین میں ترمیم کے اعلان پر جموں میں بھی ناراضگی پائی جاتی ہے۔

جموں میں کانگریس کے رہنما رویندر شرما نے کہا ہے کہ یہ اعلان اُن یقین دہانیوں کو سرار جھوٹ ثابت کرتا ہے جو انڈیا کی حکومت نے بارہا لوگوں کو دی ہیں۔

جموں میں مقیم جموں کشمیر پینتھرز پارٹی کے سربراہ ہرش دیو سنگھ نے کہا: ’بی جے پی جموں کشمیر کو برائے فروخت رکھ رہی ہے۔‘ اُنھوں نے جموں کشمیر کی سبھی سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر اس فیصلے کی مزاحمت کرنے کی اپیل کی ہے۔

جموں کے ہی ایک اور سیاسی کارکن سُنیل ڈمپل نے کہا کہ ’جموں کشمیر کی ریاستی حیثیت اور خودمختاری یہاں کے عوام کی نوکریوں اور جائیداد کی حفاظتی ڈھال ہے اور اسے واپس لانے کے لئے سب کو جدوجہد کرنا ہوگی۔‘

کشمیر

اُدھر پونچھ اور راجوری پر مشتمل پیر پنچال وادی میں بھی اس فیصلے کے خلاف سخت برہمی پائی جاتی ہے۔ پیرپنچال کے سماجی کارکن سہیل ملک نے کہا ”یہ فیصلہ غیرآئینی عمل ہے اور اسے منسوخ کروانے کے لئے سبھی حلقوں کومزاحمت کرنی چاہیے”۔

بی جے پی کے لیے نرم گوشہ رکھنے والی ‘اپنی پارٹی’ کے صدر الطاف بخاری نے کہا ہے کہ وہ شہریت کے قوانین میں مناسب اور عوام دوست تبدیلی کے لئے وہ جدوجہد کریں گے۔ قابل ذکر ہے ‘اپنی پارٹی’ نے نیشنل کانفرنس کے سرپرست فاروق عبداللہ کی سربراہی میں قائم ہوئے پیپلز الائنس میں شمولیت نہیں کی ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

کشمیر میں زمین خریدنے کے حکومت ہند کے نوٹیفیکیشن کے بعد سوشل میڈیا پر اس بابت گہما گہمی نظر آئی ہے۔

معروف صحافی اور سیاسی مبصر کنچن گپتا نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے لکھا: ‘اب کوئی بھی انڈین شہری انڈیا کی یونین ٹیریٹری جموں کشمیر میں زمین خرید سکتا ہے۔ نہرو کی آرٹیکل 370 کے روپ میں کی جانے والی تاریخی غلطی کو سات دہائیوں کے بعد بالآخر پوری طرح الٹ دیا گیا۔’

ٹویٹ

صحافی آرتی ٹیکو سنگھ نے وزارت داخلہ اور امت شاہ کو شاباشی دیتے ہوئے لکھا: جموں کشمیر اور لداخ کو سارے انڈیا کے لیے کھولنے پر شکریہ۔ اس سے سرمایہ کاری، مقابلہ، جاب اور فری مارکٹ کے ساتھ خوشحالی آئے گی۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ غریبوں اور کم زمین رکھنے والوں کو ہوگا۔ حکمراں طبقے کی جاگیرداری کا دور آج ختم ہوا۔’

ٹویٹ

دہلی یونیورسٹی میں استاد دیویکا متل نے اس پیش قدمی کو حملہ قرار دیا اور لکھا: ‘کسی بھی انڈین شہری کو جموں کشمیر کے متنازع خطے میں زمین خریدنے کا حق دینے والا ‘زمین کا قانون’ ایک حملہ ہے۔ یہ فاسشٹ حکومت کا کام ہے جو بات چت، جمہوریت اور انسانی حقوق میں یقین نہیں رکھتی۔’

ٹویٹ

کئی صارفین نے پوچھا کہ وہاں زمین کی کیا قیمت ہے جبکہ ایک صارف نے لکھا کہ جب بہار کے نوجوان روزگار کی بات کرتے ہیں تو انھیں کہا جاتا ہے کہ کشمیر میں زمین خریدنے کے قانون پر خوش ہوں۔

ٹویٹ

ٹرانسپیرنسی ایکٹیوسٹ ساکیت گوکھلے نے لکھا: ‘یوگی کی مقبولیت کا پتہ 2022 کے اترپردیش کے انتخابات میں ہوگا۔ لیکن صحیح معنوں میں یوگی بی جے پی کے لیے تمام ریاستوں کی انتخابی مہم میں سٹار کمپینر کے طور پر تباہی لائے ہیں۔ آج بہار کے نوجوان جب روزگار کی تلاش میں ہیں تو وہ انھین کہہ رہے ہیں کہ وہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اس بات پر خوش رہیں۔’

via bbc urdu