غداری کا مقدمہ کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی

(راجہ بشیر عثمانی )

منتخب وزیراعظم آذاد کشمیر راجہ فاروق حیدر پر
غداری و بغاوت کا مقدمہ درج کر کے
عمران حکومت نے عالمی اداروں میں
کشمیر کے مقدمے کو
ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے ۔وزیراعظم آزاد کشمیر ⁦پر غداری کے مقدمے پر اندرون و بیرون ملک مقیم کشمیری شدید غصے بے چینی اور اضطراب کی کیفیت سے دوچار ہیں اور یہ اضطراب اور بے چینی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے حکومت پاکستان کا یہ اقدام کشمیریوں کی توہین ہے اختلاف رائے رکھنا ہر فرد کا جمہوری حق ہے راجہ فاروق حیدر کھرے آدمی ہیں چاپلوسی اور منافقت کے بجاے جو دل میں ہے وہ زبان پر لے آتے ہیں اور یہی ان کا جرم ٹھہرا ہے ریاست جموں و کشمیر کے منتخب وزیراعظم نے حکومت پاکستان کے نمائندوں سے کسی بات پر اگر اختلاف کیا ہے تو اس پر حکومت پاکستان کی طرف سے اس قدر انتہادرجے کے ردعمل کی قطعا ضرورت نہیں تھی وزیر اعظم پر بغاوت کا مقدمہ درج کر کے دنیا بھر میں کشمیر پر پاکستان کے اصولی مؤقف کا مذاق اڑایا گیا ہے اس سے کشمیر کاز کو جتنا نقصان پہنچا ہے وہ گزشتہ تہتر برسوں میں نہیں پہنچا یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے وہ کونسے ایسے مشیر ہیں جو ایسے غلط مشورے انہیں دیے جارہے ہیں جو پوری دنیا میں جگ ہنسائی اور پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں پاکستان کے اندر آپ جو مرضی کرتے رہیں آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ کشمیر ایک حساس اور متنا زعہ علاقہ ہے بغیر سوچے سمجھے کشمیر پر کسی طرح کی بات کرنا یا کوئ قدم اٹھانا کشمیر کاز کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے حکومت پاکستان کے موجودہ اقدام سے آزاد کشمیر مقبوضہ جموں وکشمیر اور دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں کے دل زخمی ہوے ہیں غداری کا مقدمہ راجہ فاروق حیدر پر نہیں بلکہ ریاست جموں وکشمیر کے منتخب وزیر اعظم پر ہے راجہ فاروق حیدر سے سیاسی اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اس وقت جس طرح کی بھونڈی حرکت مرکز سے کی گی ہے وہ کشمیریوں کےلیے ناقابل برداشت ہے اس اقدام کے تحریک آزادی کشمیر پر بہت منفی اثرات مرتب ہونگے حکومت پاکستان وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر خان کے خلاف غداری کا مقدمہ واپس لے اور پوری کشمیری قوم سے اس اقدام پر معزرت کرے اگر پاکستانی حکمرانوں میں کشمیر کے حوالے سے حق و سچ سننے کا حوصلہ نہیں تو خاموشی اختیار کرلیں کشمیریوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیں اور اس طرح کی حرکتوں سے کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی سے گریز کریں یہ بات کس قدر تکلیف دہ اور دکھ دہ ہے کہ جس پاکستان کے ساتھ ملنے جس کا حصہ بننے جس کی تکمیل کےلیے کشمیری عوام نے لاکھوں کی تعداد میں اپنی جانوں کی قربانی پیش کی ہے لاکھوں اپنے گھروں سے بے گھر ہزاروں زخمی و معذور ہوےیہ ساری قربانیاں اسلام کی سربلندی کشمیر کی آزادی اور تکمیل پاکستان کےلیے دی گی ہیں آج کشمیر کی بستیاں اور گھر ویران اور قبرستان شہداء سے آباد ہیں کشمیری مکتہ المکرمہ کے بعد پاکستان کو اپنے لیے مقدس سرزمین سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں شہید ہونے والے نوجوانوں کے جنازے پاکستانی پرچم میں دفناے جاتے ہیں مقبوضہ جموں وکشمیر میں ہونے والے مظاہروں میں پاکستان سے ملنے کے عزم کے اظہار کےلیے نوجوانوں کےپرجوش نعرے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ کشمیری عوام کیا چاہتے ہیں اور ان کی منزل کیا ہے بدقسمتی سے جس پاکستان کو کشمیریوں نے اپنا فریق اور وکیل بنایا ہے اب اسی پاکستان کی طرف سے ریاست جموں وکشمیر کے منتخب وزیر اعظم کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرکے پاکستان کشمیریوں کو آخر کیا پیغام دینا چاہتا ہے اس مرحلے پر پاکستان کی سیاسی قیادت اور اہل دانش کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا موجودہ اگرچہ حکومت کی تمام پالیسیاں عوام دشمنی پر منبنی ہیں غربت بیروز گاری مہنگائ سے عوام کا جینا دوبھر ہوچکا ہے لاکھوں نوجوان ڈگریاں ہاتھ میں لیے ملازمت کےلیے دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں کوئ ان کا پرسان حال نہیں ہے ہر آنے والے دن ضروریات زندگی کی اشیاء کی قیمتیں بڑھتی جارہی ہیں حکمران ہیں کہ سب اچھا کی رٹ لگا رہے ہیں دوسری جانب ہماری ناکام خارجہ پالیسی کی وجہ سے بھارت مقبوضہ جموں وکشمیر میں ابادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کے منصوبے پر تیزی سے عمل پیرا ہے لاکھوں ہندوؤں کو کشمیر کے ڈومیسائل جاری کردیے گے ہیں 5 اگست 2019 کے بعد بھارت نے کشمیر کا سارا نقشہ ہی تبدیل کردیا ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حکومت پاکستان مقبوضہ جموں وکشمیر کی اس نازک صورتحال پر ذمہ دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرتی آزاد کشمیر حکومت کو مضبوط کیا جاتا کشمیر کاز کےلیے آر پار کی کشمیری قیادت اور پاکستان کے ممبران پارلیمنٹ پر مشتمل بیرون ممالک نماہندہ وفود تشکیل دیے جاتے پاکستان کشمیر کے سفارتی محاذ پر متحرک ہوتا اپنے سفارت خانوں کو خصوصی ٹاسک دیے جاتے لیکن افسوس کہ حکومت نے اس مرحلے پر صرف وزیر اعظم عمران خان کی یواین میں تقریر پر اکتفا کیا اور کشمیر کی بگڑتی صورتحال پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی گی اگر صرف خاموشی ہی رہتی تو یہ بھی قدرے بہتر تھا لیکن ستم ظریفی کی انتہا ہے کہ اس نازک مرحلے پر حکومت پاکستان کی طرف سے ایسا اقدام اٹھایا گیاہے جس سے موجودہ وفاقی حکومت کی غیر سنجیدگی غیر ذمہ دارانہ طرز عمل اور کشمیر کاز سے عدم دلچسپی کا اظہار ہورہا ہے یہ حقیقت ہے کہ پاکستانی ملت نے ہر مرحلے پر کشمیری بھائیوں کو حوصلہ دیا ہے ان کی مدد کی ہے ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے ہیں کشمیریوں نے کبھی پاکستانی عوام سے گلہ شکوہ نہیں کیا وہ پاکستانی حکمرانوں کی کشمیر کاز سے بے وفائی پر اپنی آواز بلند کرتے رہے ہیں یہ کشمیریوں کا حق ہے شکوہ و شکایت اسی سے ہوتا ہے جس سے زیادہ توقعات وابستہ ہوتی ہیں اس تناظر میں دیکھا جاے تو کشمیریوں کا پاکستانی حکمرانوں سے شکوہ جاہز ہے اسلیے کہ کشمیر کے حوالے سے جو کردار حکومت پاکستان کو ادا کرنا چاہیے تھا وہ ادا نہیں کیا جس سے مقبوضہ جموں وکشمیر میں مایوسی کا پیغام پہنچا ہے یوں تو عمران خان کی حکومت اےروز ایسی حماقتیں کرتی ہے جس سے ملک کی بدنامی میں اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن ابھی وزیر اعظم آزاد کشمیر کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کرکے اتنی بڑی حماقت کی گی ہے جس کی تلافی ناممکن ہے غداری کے اس ایشو کو پاکستان تک محدود رکھتے تو بہتر تھا لیکن آزاد کشمیر کے وزیر اعظم کو اس فہرست میں شامل کرکے ظلم و زیادتی کی گی ہے غداری کا یہ مقدمہ صرف وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کے خلاف نہیں بلکہ اسے پوری کشمیری قوم کے خلاف سمجھا جاے گا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری طور پر وزیر اعظم آزاد کشمیر کے خلاف اس مقدمے کو واپس لے اور کشمیری عوام کی جو توہین کی گی ہے اس کا ازالہ کرے سابق چیف جسٹس آزاد کشمیر سید منظور گیلانی کے مطابق پاکستان کے آئین میں آزاد کشمیر کا کوئی بھی شہری آئینی طور پرپاکستان کا باشندہ نہیں ہے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر سمیت آزاد کشمیر کے کسی بھی شہری پر آئین پاکستان کا اطلاق نہیں ہوتا ہے تو کیسا مقدمہ اور کیسی غداری؟