عمرخالد کی گرفتاری اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش ہے ‘انسانی حقوق کارکن
جب تک وہ حراست میں ہیں ان کی حفاظت اوران کی جان کو کسی بھی خطرہ سے بچانے کے لئے تمام اقدامات کیے جائیں‘بیان
بیان میں کہا گیا ہے کہ بطور شہری آئینی اقدار کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہوئے ہم عمر خالد کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہیں جس کو بدنیتی پر مبنی تحقیقات کا نشانہ بنایا گیا ہے جس کا اصل مقصدشہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف پرامن مظاہرین کو نشانہ بنانا ہے۔ہمیں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ تفتیش فروری 2020 میں دہلی میں ہونے والے تشدد کے بارے میں نہیں بلکہ غیر آئینی شہریت (ترمیمی) قانون کے خلاف پورے بھارت میں ہونے والے مکمل طورپر پرامن اور جمہوری احتجاجی مظاہروں پر ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ عمرخالدبھارت کے آئین اور جمہوریت کے حق میں ایک مضبوط اور طاقتور آواز بن کر ابھرا ہے۔ بیان پر دستخط کرنے والوں میں پیپلز یونین فار سول لبرٹیز کے روی کرن جین اور وی سریش ، وکیل مہر ڈیسائی اور این ڈی پنچولی ، ماہرین تعلیم ستیش دیش پانڈے ، میری جان ، اپورواآنند ، نندنی سندر اور شدھابراتا سین گپتا اورانسانی حقوق کے کارکن آکار پٹیل ، ہرش مینڈر ، فرح نقوی اور بیراج پٹنائک شامل ہیں۔ گروپ نے کہا کہ دہلی فسادات پر متعددجھوٹے مقدمات میں خالدکو ملوث کرنے کی دہلی پولیس کی باربار کی کوششیں اختلاف رائے کو دبانے کی ایک سازش ہے۔ انہوں نے اس طرزعمل کی طرف بھی توجہ مبذول کروائی جس طرح نوجوانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔