بھارتی سپریم کورٹ کاجعلی مقابلے میں تین کشمیری نوجوانوں کے قتل کی تحقیقات کے بارے میں درخواست سننے سے انکار

سرینگر ۔  بھارتی سپریم کورٹ نے رواں سال18جولائی کوشوپیان میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں راجوری سے تعلق رکھنے والے تین بے گناہ نوجوانوں کے جعلی مقابلے میں قتل کی تحقیقات کے لئے مفاد عامہ کی درخواست سننے سے انکار کر دیا۔کشمیرمیڈیا سروس کے مطابق سوشل میڈیا پر جعلی مقابلے میں شہید ہونے والے نوجوانوں کی تصاویر دیکھ کر راجوری میں ان کے اہلخانہ نے دعویٰ کیا کہ وہ ان کے بچے ہیںجو مزدوری کے لئے شوپیان گئے تھے۔درخواست گزار کی نمائندگی کرنے والے ایڈوکیٹ صالح پیرزادہ نے صحافیوں کوبتایا کہ جب درخواست پر سماعت شروع ہوئی تو جسٹس سنجے کرشن کول ، جسٹس انیرودھ بوس اور جسٹس کرشنا مراری پر مشتمل تین رکنی بنچ نے ان سے پوچھا کہ درخواست گزار نے پہلے جموںوکشمیر ہائی کورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا انہوںنے کہاکہ میں نے بینچ کو بتایا کہ درخواست گزار نے اسکول پرنسپل رضوان پنڈت کے زیر حراست قتل سے متعلق جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے سامنے درخواست دائر کی تھی لیکن حکومت نے ایک سال گزرنے کے باوجود ابھی تک اس درخواست پر جواب ہی داخل نہیں کیا ہے اور ایک سال کے بعدہم لاش کے مطلوبہ ٹیسٹ کی توقع نہیں کرسکتے ہیں۔

صالح نے بتایاکہ ججزنے کہا کہ وہ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کو نظرانداز نہیںکر سکتے۔ انہوں نے کہا کہ بنچ نے انہیں درخواست واپس لینے اور ہائی کورٹ سے رجوع کرنے کے لیے کہایا اسے خارج کردیا جائے گا۔ انہوں نے کہا میں نے درخواست واپس لے لی۔درخواست جموں وکشمیر ریکنسیلیشن فرنٹ نے اپنے چیئرمین ڈاکٹر سندیپ ماوا کے ذریعے دائر کی تھی۔درخواست میں ابرار احمد ، امتیاز احمد اور ابرار احمد کے قتل کی تحقیقات کی درخواست کی گئی تھیں جنہیں بھارتی فوجیوںنے 18جولائی کو شوپیان میں ایک جعلی مقابلے میں شہید کیا تھا۔