مرحوم ٹاک زینہ گیری کشمیر کا ایدھی

معراج الدین زرگر، ترال کشمیر
آج کے جدید اور بے ہنگم دور میں ایسے فلاحی اداروں کا قیام جو خالصتاٌ رضاکارانہ طور اِنسانی خدمات کیلئے معرض ِ وجود میں آئے ہوں، در اصل انبیائی اصولوں کی پاسداری اور اتباع کی عملی شکل ہے۔اِس تناظر میں جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ کا قیام بھی 1972ء میں مرحوم عبد الخالق ٹاک زینہ گیری کے مبارک ہاتھوں ہوا۔مرحوم ٹاک صاحب ایک عظیم ا لمرتبت اِنسان دوست اور سلیم ا لفطرت تھے۔ اعلیٰ سوچ کے حامل قلمکار اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک ایماندار اور قابل سرکاری آفیسر تھے۔غریب ، نادار ، اور مفلس عوام کے تئیں ایک ہمدردانہ دل اور محبت بھرا جذبہ رکھتے تھے۔مرحوم موصوف جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ کی بنیاد ڈالنے سے پہلے ہی انفرادی طور اور اپنے کچھ رضاکاران کے ساتھ مل کر خدمتِ خلق کے عظیم کام میں ہمہ تن مصروف ِ عمل ہو چکے تھے۔ چونکہ وہ محکمہ مال سے وابستہ تھے ، اور ایک بنیادی ممبر کی حیثیت سے اکثر دیہات اور دوسری دور دراز جگہوں پر تعینات رہے، اِسلئے اُنہیں بنیادی سطح پر محروم اور پچھڑے ہوئے طبقات کی کسمپرسی اور افلاس کا خاصا مشاہدہ تھا۔اِفرادی سطح پر وہ ایک سنجیدہ اور پُر خلوص دینی خدمت گار کے طور ایک مسلمہ شخصیت کے حامل تھے۔باری تعالیٰ نے اُنہیں اِسی مناسبت سے خلوص، نیک نیتی، غریب پروری، یتیم پروری، اور مسکین پروری کے سلسلے میں کشادہ قلبی بخشی تھی۔1972ء میں مرحوم نے باضابطہ جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ کی شکل میں ایک ادارہ قائم کیا۔24جولائی 1973ء میں جموں و کشمیر سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ کے تحت اِس فعال اِدارے کو رجسٹر کیا گیا اورآج کی تاریخ میں یہ اُن چند رضاکار اِداروں میں سے ایک ہے جنہیں قانوناً ٹرسٹیز ایکٹ رجسٹریشن حاصل ہے۔ ٹرسٹ کو باضابطہ ایک بورڈ آف ٹرسٹیز چلاتا ہے جس کا سربراہ ٹرسٹ کا سرپرست ہوتا ہے۔تمام ٹرسٹیز رضاکارانہ طور خدمات انجام دیتے ہیں ۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جس تاریخ یعنی 24 جولائی کو جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ کو رجسٹر کیا گیا، اُسی تاریخ کو سال 1989ء میں وادی کا یہ عظیم سپوت اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملا۔(ا ﷲ اُنہیں کروٹ کروٹ جنّت نصیب فرمائے۔آمین)
مرحوم ٹاک صاحب نے جس گھر میں آنکھ کھولی ،وہاں غریبی اور تنگ دامانی بچپن میں ہی ان کے حصے میں آئی۔چونکہ آپ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے ،اور یہی وجہ ہے کی فقط میٹرک کے بعد ہی آپ نے گھریلو مجبوریوں کو بھانپتے ہوئے سرکاری نوکری کرنے کی ٹھانی۔ بحیثیت پٹواری کے آپ کا روزانہ معاملہ چونکہ نچلی سطح پر عوام کے ساتھ تھا۔اسطور وہ معاشرے کے اندر غربت، افلاس، تنگ دستی، کسمپرسی او ر ناداری سے پوری طرح واقف ہوچکے تھے۔ اپنی نوکری کے دوران ہی محمد سعید نامی ایک غریب بچے نے مرحوم ٹاک صاحب کو ایک پوسٹ کارڈ کے ذریعے تعلیمی معاونت کرنے کے لئے درخواست کی اور ٹاک صاحب اپنی جیب سے اس بچے کی مدد کرتے رہے ۔ یہاں تک کہ وہ ایک ڈاکٹربنے۔ اس ایک معمولی خدمت نے مرحوم ٹاک صاحب کے قلب سلیم میں اتھل پتھل مچادی۔ وہ حِس جسے قادر مطلق نے مرحوم ٹاک صاحب کے وجود میں نفوذ کیا تھا۔ اس حس نے مرحوم کو ایک بڑے کام کے لئے اکسایا۔
جہانِ گفتار کی غلام گردشوں سے خود کو آزاد کراکے مرحوم میدان عمل میں کود پڑے اور پھر تبحر اور تموج سے بھرپور خدمت خلق کے بحر بے کنار میں غوطہ زن ہوئے۔ اس زمانے میں یہ کسی نئی نظریاتی تحریک یا رینگتے ہوئے انقلاب سے کم نہ تھا۔ اور پھر جس مہم جوئی پہ مرحوم نکلے تھے، اس کے لئے جس زاد ِ  راہ کی ضرورت تھی وہ اغیار و اقرباء کے سامنے بغیر دامن پھیلائے حاصل ہونا نا ممکن تھا۔ اس فن ِ شیشہ گری میں کہیں انگلیوں سے خون ٹپکا تو کہیںدل وجود پہ کرچیوں سے زخم آئے۔ کہیں دامن دلگیر  مجروح ہوا تو کہیں نفس پامال ۔مگر مرحوم نے اپنے لہو لہان وجود کو گھسیٹتے ہوئے ہزاروں غمزدوں اور پریشان حالوں کی راحت کاسامان کرکے ہی دم لیا۔
مرحوم ایک انتہائی درویش منش انسان تھے۔ اپنے ادارے کی دیکھ ریکھ میں اس قدر منہمک ہوئے کہ اکثر گھر کی ضرورتوں اور دیگر سماجی مصروفیات سے کنارہ کش ہی ہو جاتے تھے۔ شاید یہ بات اس وقت کانوں کو بھلی لگتی ہو، مگر جس پہ گذری یہ وہی جانے۔ مرحوم ٹاک صاحب اور ان کا گھر قربانیوں کی لمبی داستان ہے اور انہی قربانیوں کے طفیل جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ آج ریاست کاایک بڑا فلاحی ادارہ ہے۔
کبھی کبھی انسانی عظمتوں سے متعلق لکھنا بھی ایک کار دارد والا معاملہ ہوتا ہے۔ مگر جب عظمتوں کے نقوش خود صاحب ِ عظمت کے گواہ ہوں تو کیا کیجئے۔ اور کچھ عظمتیں ایسے ہوتی ہیں جن کا انکار مخالفت کی صورت میں بھی ناممکن ہوتا ہے۔ مرحوم ٹاک صاحب کی بڑائی اور عظمت گویا خدمت خلق کے باب میں ایک اصول ایمان کا درجہ رکھتی ہے۔ جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ کا جب بھی نام لیا جاتا ہے، مرحوم کی ذات قرطاس ِ شعور پہ خیمہ زن ہوتی ہے۔ مرحوم کا یہ خاصہ رہا ہے کہ آپ نے ریاست جموں و کشمیر میں خدمت خلق کے کام کو جس منہج اور جس اسلوب کے ساتھ کامیابی کے زینے پہ کھڑا کرکے دکھایا ، اس کی مثال ہر ایک تہذیب یا قوم یا علاقہ میں شاذو نادر ہی ملتی ہے۔مرحوم نے ریاست میں دین کی ایک وصف کو بالکل ہی ایک نئے انداز میں متعارف کرایااور اسے ایک ادارہ جاتی شکل دی۔
شاید آفریدگار عالم نے مرحوم کی ذات کو اس لئے چن لیا تھا کہ ریاست کو اپنی پوری تاریخ کے ایک بد ترین دور سے گذرنا تھا۔ جس کے لئے جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ  جیسے ادرا ے کا معرض وجود میں لانا حکمت خداوندی کے سوا کچھ نہیں ۔ اور آج اس بات کا ادراک کسی بھی باعقل اور باشعور کو ہو سکتا ہے ۔ دین یا فطرت جن دو مستقل بنیادوں کا تقاضا ایک انسان سے کرتی ہے، یا جواوصاف ہم سے دینداری کے لئے اور معاشرتی وجود کی حیثیت میںدرکار ہیں ۔ یعنی ہمارا دین ہمیں ہمہ وقت جن دو بنیادوں پر مستقلاً دیکھنا چاہتا ہے وہ ایک تو بندہ خدا کی پوزیشن پر اور دوسرا معاشرتی وجود کی حیثیت میںہونا ہے۔ مرحوم کی ذات ان دونوں مستقل بنیادوں کے مجسمہ تھے۔ یعنی بندہ خدا کی حیثیت میں وہ ایک عابد انسان تھے اور حسن معاشرت کے قیام میں مسلسل کوشش میں رہتے تھے اور فکر مند رہتے تھے۔ ان کی خلوت میں ان کا تعلق اپنے مالک سے ہوتا تھا اور ان کی جلوت کا تقریبا بیشتر حصہ خدمت خلق میں گذرتا تھا۔ یتیموں، بیوائوں ، ناداروں، مسکینوں اور پریشان حالوں کی فکر انہیں ہر لحظہ بے قرار کئے رہتی تھی۔ وہ اپنے عمل اور معاشرتی فکر اور ذمہ داری میں  اپنی تمام تر صلاحیتوں کا استعمال بروئے کار لاتے تھے اور اپنے ذہن کی بہترین صلاحیتوں اور شعور کے تمام شعبوں کو خدمت خلق کے محور پہ مرکوز کئے رہتے تھے۔ اور مرحوم تمام عمر خود اسی محور کا طواف کرتے رہے ۔وہ کشمیر کے عبدالستار ایدھی تھے جن کے نقوش مٹانا ممکن نہیں ہے۔ آج جموں و کشمیر یتیم ٹرسٹ مرحوم کے اسی محور ِ خدمتِ خلق کا ایک زندہ جاوید مینارہے۔ اللہ پاک مرحوم کی روح کے درجات بلند فرمائے۔ آمین