جموں وکشمیر ایک بڑی جیل ہے اور مودی حکومت مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی: پی چدمبرم

پروجیکٹ جموں و کشمیر کا مقصد ریاست کو توڑنا ،اس کی حیثیت کو گھٹاکریونین ٹیری ٹوری بنانا ، ان علاقوں کو براہ راست نئی دہلی کی حکمرانی میں لانا اور آزادی کی جدوجہد کو کچلنا تھا

سرینگر بھارتی سیاستدان اور سابق وزیر پی چدمبرم نے جو اس وقت راجیہ سبھا کے رکن ہیں کہا ہے کہ جموں وکشمیر ایک بڑی جیل ہے اور مودی حکومت 5 اگست 2019 کے اقدامات کے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق پی چدمبرم نے آج شائع ہونے والے ایک مضمون میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے لئے بھارتی آئین کی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پروجیکٹ جموں و کشمیر کا مقصد ریاست کو توڑنا ،اس کی حیثیت کو گھٹاکریونین ٹیری ٹوری بنانا ، ان علاقوں کو براہ راست نئی دہلی کی حکمرانی میں لانا ، سیاسی سرگرمیوں کو دبانا ، وادی کشمیر کے ساڑھے سات لاکھ لوگوں کوہراساں کرنا اور آزادی کی جدوجہد کو کچلنا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ تمام وسائل کو استعمال کیا گیا لیکن کوئی بھی نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکا اور میرے خیال میں موجودہ پالیسی کے تحت کبھی حاصل بھی نہیں کیا جاسکتا ۔انہوں نے کہا کہ تمام اہم بنیادی حقوق مکمل طورپر معطل ہیں۔ پبلک سیفٹی ایکٹ اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کا قانون اندھا دھندطریقے سے استعمال کیا جارہا ہے۔ تحریک آزادی کو روکنے کے لئے وسیع پیمانے پر محاصرے اورتلاشی کی کارروائیاں روزانہ کی جارہی ہیں۔انسانی حقوق کو برقرار رکھنے کے لئے تمام قانونی کمیشنوں کو مجروح کیاگیا ہے۔ نئی میڈیا پالیسی واضح اعتراف ہے کہ آزاد میڈیا کے لئے جموں و کشمیر میں کوئی جگہ نہیں اور یہ سنسرشپ کو تقویت دیتی ہے۔بھارتی سیاست دان نے کہاکہ مبین شاہ ، میان عبد القیوم ، گوہر گیلانی ، مسرت زہرہ اور صفورا زرگر کے مقدمات قانون کے ناجائز استعمال اور انصاف کے حصول میں مشکلات کو ظاہر کرتے ہیں۔کشمیرایوان صنعت وتجارت نے تخمینہ لگایا ہے کہ اگست 2019 کے بعد سے صرف وادی کشمیرکے پیداوار میں ہونے والا نقصان تقریبا 40ہزارکروڑروپے ہے اور 4لاکھ97ہزارافراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ سیاحوں کی آمدجو2017میں 6لاکھ11ہزار534 تھی سے گھٹ کر 2018ء میں3لاکھ16ہزر424 اور 2019ء میں صرف 43ہزار59رہ گئی ہے۔پھلوں ،گارمنٹس، قالین سازی ، آئی ٹی ، مواصلات اور ٹرانسپورٹ کی صنعتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔انہوں نے کہاکہ عدالت عظمیٰ کو جموں و کشمیرری آرگنائزیشن ایکٹ کی آئینی حیثیت ، 4 جی سروسز کی بحالی اور غیر قانونی سرگرمیوںکی روک تھام کے قانون میں ترامیم کے علاوہ انسانی حقوق سلب کرنے کے خلاف متعدد درخواستوں کا فیصلہ کرنا ابھی باقی ہے۔مضمون کے آخر میں ان کا کہنا ہے کہ 5اگست کو ایک سال ہوگا پھر بھی ہمارے آئینی اداروں ظ پارلیمنٹ ، عدالتوں اور سیاسی نظام کو 5 اگست 2019 کو پیدا ہونے والے مسئلہ کشمیر کے بارے میں کوئی جواب نہیں ملا۔