کتاب و سنت کے حوالے سے مسائل کا حل

مفتی نذیراحمد قاسمی

پانی مخلوقاتِ عالم کا مدارِ حیات

اس کو آلودہ کرنے پر لعنت کی وعید

سوال :-کشمیر میںجہاںدیکھیں جھیلیں ،ندی نالے،چشمے اور دریاموجود ہیںاوران سے وافر مقدار میں پانی برآمد ہوتا ہے ،جو زندگی کی رفتار کو آگے بڑھانے کا ایک بنیادی ذریعہ ہے ،لیکن برسہا برس سے پانی کے ان ذرائع اور ذخائر کے ساتھ ہم نے کیا کچھ کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔آج بھی اس حوالے سے ہمارا رویہ کیسا ،وہ عیاں و بیاں ہے۔ تقریباً پورا کشمیر پاک و صاف اور بہترین پانی کے ذخیروں کے خزانوں سے بھر پور ہے مگر اس پانی کے ساتھ ہمارا رویہ کیسا ہے ۔اس کی تفصیل بتایئے اور اس رویہ کی خرابیاں اور اُس کے نتایج بھی بتایئے اوراس بارے میں اسلام کا حکم بھی بتایئے ۔میں ایک سوشل ادارے سے وابستہ ہوں اور بہت درد مندی سے یہ سوال کررہا ہوں۔
فہیم احمد خان ۔سرینگر
جواب :-پانی اللہ کی وہ نعمت جس کی بنیاد پر ہر مخلوق کی زندگی قائم ہے ،کیڑوں سے لے کر ہاتھیوں تک ،تتلی سے لے کر مچھلی تک اور جانوروں سے لے کر انسان تک ہر چیز کی حیات کا مدار یہی پانی ہے۔قرآن میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر پانی کے مدارِ حیات ہونے کا بیان کیا ہے ۔آج کی سائنس اور انسانوں کا مشاہدہ بھی یہی ہے ۔اس پانی کے ساتھ عموماً جو غیر شرعی رویے پائے جاتے ہیں اُن میں سب سے بدترین رویہ یہ ہے کہ آج ہر قسم کی گندگیاں اسی پانی میں ڈالی جاتی ہیں۔چنانچہ عام گھر والے ،ہاوس بوٹ والے ،جھیلوں کے کناروں پر ہوٹلوں والے وہ تمام دریا اور نالے جو بستیوں میں سے گزرتے ہیں تو عموماً ہر قصبے ،شہر اور بستی والے اپنے گھروں کی ہر قسم کی گندگی اسی پانی میں ڈال دیتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ جہاں سے یہ پانی نکلتا ہے وہاں شفاف تو ہوتا ہے اور پھر انسانوں کی بستیوں سے گذر کر آگے پہنچتا ہے تو سخت گندہ ہوچکا ہوتا ہے ۔اس کا مضر ،آلودہ اور زہریلا ہونا طے ہے ۔غسل خانوں اوربیت الخلا ئوں کا فضلہ، اسی طرح پلاسٹک کی بوتلیں اور پالیتھین کے استعمال شدہ ٹکڑے اسی پانی میں ڈال کر اس پانی کو آلودہ بھی کیا جارہا ہے اور زہریلا بھی بنایا جارہا ہے اور المیہ یہ ہے کہ پوری قوم کی اکثریت اس جرم کے احساس سے بھی محروم ہوچکی ہے ۔پانی کو آلودہ کرتے ہوئے قوم کی اکثریت کی سوچ یہ ہے کہ گویا یہ کوئی جرم ہی نہیں ہے ۔اس سلسلے میں حدیث یہ ہے: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تین ایسے جرائم سے اجتناب کرو جو جرم تم کولعنت کا مستحق بنادیں گی ۔ایک پانی میں پاخانہ کرنا ،دوسرے راستوں میں پاخانہ کرنا ،تیسرا پھل دار درختوں کے نیچے پاخانہ کرنا ۔یہ حدیث مشکوٰۃ شریف میں ہے ،پانی میں ایک مرتبہ پاخانہ کرنا یا پاخانہ ڈالنا لعنت کا مستحق بنادیتا ہے تو جب سارے بیت الخلائوں کا رُخ ہی اور تمام نکاسی ہمیشہ اسی پانی میں ہو تو یقیناً یہ پوری قوم کے لعنت میںگرفتار کرنے کے لئے کافی ہے۔چنانچہ اس وقت ہم پر مختلف قسم کی مصیبتیں مسلط ہیں اور آئندہ بھی ان مصیبتوں کے کم ہونے یا ختم ہونے کے امکانات نظر نہیں آرہے ہیں۔اُس کے بہت سارے اسباب میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جن جرائم پر لعنت نازل ہونے کی وعید یں سنائی ہیں ،اُن بہت سارے جرائم میں قوم کی اکثریت مبتلا ہے ۔اُن جرائم میں سے ایک جرم پانی کو گندہ کرنا بھی ہے ۔لہٰذا پاخانہ ،گھروں کا کوڑا کرکٹ ،کچرا اور خاص کر پانی کی استعمال شدہ پلاسٹک کی بوتلیں اور پالی تھین ہرگز ہرگز پانی میں ڈالنے سے پر ہیز کریںاور اسی کو جرم محسوس کریں اور اس جرم کو لعنت کا مستحق بنانے والا جرم سمجھ کر ترک کریں۔
دوسرا جرم جو پانی کے سلسلے میں پایا جاتا ہے وہ پانی کا اسراف اور اس کو ضائع کرنا ہے۔یہ جرم اتنا پھیل گیا ہے کہ نمازیوں میں سے بھی اکثریت پانی کے نلکے کھلا چھوڑ کر اس طرح وضو کرتے ہیں کہ پانی کی بہت بڑی مقدار ضائع ہوتی ہے۔پانی کو ضائع کرنے کا جرم یہ بھی ہے کہ واٹر سپلائی کا پینے کا پانی گاڑیوں کے دھونے ،پارکوں کو سیراب کرنے اور گھر کے پاتھ کو صاف کرنے میں استعمال کیا جائے۔حالانکہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہتے ہوئے دریا پر بھی وضو کرتے وقت وہاں پر بھی پانی کے اسراف سے منع کیا ہے ۔لہٰذا ہر شخص پانی کا استعمال کرتے ہوئے بار بار دیکھے کہ وہ پانی کو ضائع کرنے کے جرم میں مبتلا تو نہیں۔خصوصاًخواتین اپنے کپڑے یا برتن دھوتے وقت باربار اس کا دھیان رکھیں کہ پانی کا ضیاع یا اسراف اگر ہورہا ہے تو اللہ کو ناراض کرنے کا جرم ہورہا ہے  ،اس سے پرہیز کریں ،وضو اور غسل کرنے والے بھی دھیان دیں کہ ضرورت کتنے پانی کی ہے اور استعمال کتنا ہوا ہے۔حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مُد (درمیانی درجہ کے مگ کے برابر)پانی سے پورا وضو کرتے تھے اور ایک صاع (چار مُد)یعنی چار درمیانہ درجے کے  مگ میں جتنے پانی کی مقدار ہوگی اُس سے غسل کرتے تھے ۔یہ حدیث بخاری ترمذی مسلم وغیرہ میں موجود ہے۔ہم پانی کے کثرت استعمال کی بُری عادت کا اس درجہ شکار ہیںکہ اب ہمارا ذہن بھی یہ بات قبول کرنے کو تیار نہیں کہ اتنے تھوڑے پانی سے وضو اور غسل کیسے ہوگا ،راقم نے خود عرفات اور مزدلفہ میں حج کے دوران حبشی لوگوں کو صرف اُسی بوتل سے وضو کرتے دیکھا  ہے جس میں آدھا لیٹر پانی سماتا ہے۔بہر حال پانی کے اسراف سے اور اس کو ضائع کرنے سے اجتناب ضروری ہے اور یہ دین کا حکم ہے ۔خلاصہ یہ پانی میں گندگیاں ڈالنے کے جرم سے پرہیز کریں اور پانی کو ضائع کرنے اور اسراف کے ساتھ استعمال کرنے سے اجتناب کریں۔
سوال :-بہت سارے نوجوانوں کی حالت یہ ہے کہ اُنہیں بہت بُرے بُرے خیالات آتے ہیں ۔ میرا حال بھی ایسا ہی ہے۔ یہ خیالات اللہ کی ذات کے بارے میں ،حضرت نبی علیہ السلام کے متعلق ، ازواج مطہراتؓ کے متعلق ،قرآن کے متعلق ہوتے ہیں۔اُن خیالات کوزبان پر لانا بھی مشکل ہے ،اُن خیالات کو دفع کرنے کے جتنی بھی کوشش کرتے ہیں اتنا ہی وہ دل میں ،دماغ میں مسلط ہوتے ہیں ۔اب کیا یا جائے ؟
کامران شوکت
بُرے خیالات

شیطان وہیں حملہ کرتاہے جہاں ایمان کی دولت ہو

جواب :-بُرے خیالات آنا دراصل شیطان کا حملہ ہے۔حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صحابیؒ نے یہی صورتحال عرض کرکے کہاکہ یا رسول اللہ ؐ میرے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں کہ اگر میں اُن کو ظاہر کروں تو آپؐ ہم کو کافر یا منافق قرار دیں گے ۔
اس پر حضرت ؐ نے ارشاد فرمایا کہ واقعتاً تمہارے دل میں ایسے خیالات آتے ہیں ؟ عرض کیا گیا کہ ہاں ایسے خیالات آتے ہیں۔ تو آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ ایمان کی علامت ہے ۔ عرض کیا گیا کیسے ؟تو ارشاد فرمایاچور وہاں ہی آتاہے کہ جہاں مال ہوتاہے ۔ جب ایسابُرے خیال آئیں تو باربار استغفار اور لاحول پڑھنے کا اہتمام کریں اور اپنے آپ کو مطمئن رکھیں کہ یہ آپ کا اپنا خیال ہے ہی نہیں ۔ آپ کاخیال تو وہ ہے جو آپ کی پسند کے مطابق ہو ۔ یہ خیال آپ کو نہ پسند ہے نہ قبول ہے تو اس کا وبال بھی آپ کے سر پر نہیں ہے ۔
سوال :- تسبیح (Beads)کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اس کا کاروبار بڑے زور و شور سے چل رہا ہے۔ اس سلسلے میں عامی جانکاری کیلئے واقفیت سے مستفید فرمائیں۔
نثار نائری

تسبیح کا استعمال

جواب :-قرآن کریم میں ارشاد ہے۔ صبح و شام اللہ کی تسبیح کرو۔ احادیث میں ہر فرض نماز کے بعد تسبیح پڑھنے کی ترغیب ہے۔ فرض نماز کے بعد یہ مقدار بخاری شریف کی ایک حدیث میں 33مرتبہ سبحان اللہ، 33مرتبہ الحمداللہ اور 34مرتبہ اللہ اکبر ہے۔ اور ایک حدیث میں دس دس مرتبہ ہے۔ اس کے علاوہ تیسرا کلمہ، چوتھا کلمہ، دورد شریف ، کلمہ استغفار وغیرہ پڑھنے کی مقدار اہل علم اور عبادات کا ذوق رکھنے والے اپنے لئے مقرر کرکے رکھتے ہیں۔ اس مقدار کو پورا کرنے کے لئے گنتی کی ضرورت ہے۔ اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے دانوں والی تسبیح بھی استعمال ہوئی اور آج دیجیٹل تسبیح بھی استعمال ہوتی ہے۔
جیسے اوقات نماز جاننے کے لئے گھڑی ، حج کرنے کے لئے گاڑی و جہاز اور اوقات سحر و افطار کے لئے کلینڈر استعمال ہوتے ہیں۔ اسی طرح مقدار اور گنتی کو صحیح طور پر پورا کرنے کے لئے دانوں والی یہ تسبیح استعمال کی جاتی ہے اور کچھ حضرات آج ڈیجیٹل تسبیح بھی استعمال کرتے ہیں۔ یہ نہ فرض اور نہ حرام ہے۔ نہ لازم نہ ممنوع ہے۔ یہ ایک عبادت کو صحیح تعداد اور درست مقدار کے ساتھ پورا کرانے کا ایک مفید آلہ ہے۔ اور اس کی مزید بڑی خوبی یہ ہے یہ جب ہاتھ میں ہوتی تو عموماً زبان پر ذکر اللہ، درود، استغفار کے جاری ہونے کا سبب بنتی ہے۔ اس لئے اس کو مذکرہ بھی کہا جاتا ہے یہ یاد دہانی کا ایک مفید ذریعہ ہے۔

 

via kashmir uzma