بھارت کے چینی اثاثوں پر جوابی حملے کے غلط نتائج نکلنے کا خطرہ

جب سے 15 جون کو ہمالیہ میں ایک سرحدی جھڑپ میں چینی فوجیوں نے 20 بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے،بھارتی شہریوں نے اپنا غم و غصہ ظاہر کرنے کے لئے دلکش طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔حیدرآباد کی ایک مصروف خوردہ مارکیٹ میں تاجروں نے چینی ساختہ مچھر مار بلے کو زمین پر پٹخا اور اس پر تھوکا، اور گجرات کے ایک متوسط طبقے کے اپارٹمنٹ کے رہائشیوں نے چینی فلیٹ اسکرین ٹیلی ویژن کھڑکیوں سے باہر پھینک دیے۔

یہ نمائش اس بات کی یاد دہانی تھی کہ جوہری مسلح ہمسایہ ممالک ان کی متنازع 3،488 کلومیٹر سرحد پر تناؤ کے باوجود اقتصادی طور پر پیچیدہ جال میں الجھے ہوئے ہیں، چینی کمپنیوں کے بھارت کی صارف مارکیٹ میں مضبوطی سے قدم قائم ہیں۔

اس خونی جھڑپ کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت چین کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات پر نظر ثانی کر رہی ہے۔فوجی ڈاؤن کی طلب کے ساتھ بھارت چینی کپنیوں کی بھارتی مارکیٹ تک رسائی محدود کرکے اپنےزیادہ طاقتور پڑوسی کو وہاں مارنا چاہتا ہے جہاں اس کے خیال میں وہ اسے چوٹ پہنچاسکتا ہے۔

اگرچہ نئی دہلی نے ابھی تک کوئی اعلان نہیں کیا ہے تاہم ایسی علامات موجود ہیں کہ اقتصادی جنگ شروع ہوچکی ہے۔ کسٹم حکام چینی درآمدات بالخصوص غیرضروری سمجھے جانی والی درآمدات کی کلیئرنس دینے میں سست روی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ نئی دہلی نے پیر کو 59 چینی ایپس پر پابندی عائد کردی ، جن میں ٹک ٹاک بھی شامل ہے۔ حکام نے بتایا کہ وہ چین سے درآمدات کی حوصلہ شکنی کے لئے درآمدی نرخوں اور سخت معیار پر غور کررہا ہے۔

چینی مصنوعات کے بائیکاٹ کرنے کی باتیں بھارتی پالیسی سازوں اور شہریوں میں یہ احساس پیدا کررہی ہیں کہ وہ ایک مضبوط ہمسایہ ملک پر جوابی وار کرسکتے ہیں۔درحقیقت ، ماہرین معاشیات نے متنبہ کیا ہے کہ چین کو معاشی زک پہنچانے کی کسی بھی کوشش سے خود بھارتیوں کو مشکلات پیش آئیں گی۔

بھارت اپنی دواسازی کی صنعت کے لئے اینٹی بائیوٹکس اور خام مال سے لے کراپنی قابل تجدید توانائی ڈرائیو کے لئے شمسی پینل سے لے کرکم لاگت والے اسمارٹ فونز کے کلیدی اجزاء تک بہت سی اہم چیزوں کے لیےچین پر انحصار کرتا ہے۔ یہاں تک کہ بھارت کی آٹوموٹو انڈسٹری کچھ چینی پارٹس پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔

نئی دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں معاشیات کے پروفیسر بسوجیت دھر کا کہنا ہے کہ بھارت چین سے خود کوعلیحدہ نہیں کرسکتا – یہ ممکن نہیں ہے۔معاشیات کی منڈی میں آپ صارف کو یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ چین سے یہ سستی مصنوعات نہ خریدیں۔ بھارت سے ملنے والی یہ مہنگی چیزیں خریدیں، یہاں تک کہ اگر معیار اچھا نہیں ہے تو بھی؟

اس موسم گرما کے سرحدی تنازع کھڑا ہونے سے قبل بھارت اپنے پڑوسی کے ساتھ بڑے تجارتی خسارے پر پریشان تھا۔جب بھارت کی معیشت میں وسعت آئی، چین سے اس کی درآمدات میں اضافہ ہوا، جس نے 2017-2018 کے مالی سال میں 76ارب ڈالر کی حد کو عبور کیا۔ اس کی برآمدات تسلسل برقرار رکھنے میں ناکام رہی ، جس کے نتیجے میں اس سال63 ارب ڈالر کا باہمی تجارتی خسارہ ہوا۔

درآمدی ڈیوٹیز میں اضافے کے بعد سے بھارت کو 65 ارب ڈالر تک چین سےدرآمدات کم کرنے میں مدد ملی، اور دو طرفہ تجارتی خسارہ 7.48 ارب ڈالر تک کردیا۔

تاہم اپریل میں نریندرمودی نے ایک’خود انحصاربھارت‘‘ کے ایک نئے وژن کی نقاب کشائی کی ، جس میں صارفین سے زیادہ سے زیادہ مقامی سامان خریدنے کی اپیل کی گئی۔بھارت نے بھارتی کمپنیوں میں چینی سرمایہ کاری کے سخت قوانین کا بھی اعلان کیا۔

ماہرین اقتصادیات اور کاروباری گروپ کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود سرحدی خطرے کے باعث ہونے والی دشمنی کا بدلہ لینے کیلئے چینی درآمدات میں فوری رکاوٹ یا اس کو روکنے کے لئے اچانک ردعمل کے غلط نتائج نکل رہے ہیں۔انڈیا سیلولر اور الیکٹرانکس ایسوسی ایشن نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام سے مینوفیکچرنگ صنعتوں کی پیداوار میں خلل واقع ہو گا جو پہلے ہی حالیہ لاک ڈاؤن سے دوچار ہیں اور اہم مصنوعات کی مارکیٹ میں قلت پیدا کرے گا۔

مسٹر دھر نے کہا کہ بھارت دوا سازی اور الیکٹرانکس کے سامان جیسی سب سے بڑی اسٹریٹجک اور مالی قدر کی اشیا پر توجہ دیتے ہوئے بتدریج چینی درآمدات کو ملکی متبادل کے ساتھ تبدیل کرنے کے لئے ایک درمیانی مدت کی حکمت عملی تیار کرسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ کسی بھی چیز کو درآمدی متبادل کی شکل میں ڈھالنے کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔ آپ کے پاس مالی وسائل نہیں ہیں اور نہ ہی ٹیکنالوجی ہے۔ہمیں فیصلہ کرنے کے لحاظ سے بہت اسٹریٹجک بننا پڑا ہے کہ ہم کن شعبوں میں پیداوار بڑھانا چاہتے ہیں۔ آپ ہر چیز کا ایک ساتھ بائیکاٹ کرنے کے بارے میں سوچنے کا متحمل نہیں ہوسکتے۔

اگر نئی دہلی مزید تیز کارروائی کرتا ہے تو بھارتی صارفین مستقبل کے لئے کم اور زیادہ مہنگی مصنوعات کیلئے قیمت ادا کریں گے۔تاہم اطلاعات کے مطابق چین متنازع سرحد کے ساتھ بڑے پیمانے پر فوج تشکیل دے رہا ہے ، ایسے اقدامات لوگوں کو جمع کرنےمیں مدد فراہم کریں گے۔

چین میں بھارت کے سابق سفیر گوتم بمباوالے نے ایک حالیہ ورلڈ وائڈ ویب سیمینار ویبنائر میں بتایا کہ چین کو سزا دینے والی پالسییوں کے لئے عوام کی بہت زیادہ حمایت حاصل ہے۔بھارت کو بھی کچھ معاشی مشکلات پیش آئیں گی لین ہمیں اس کا مقابلہ کرنا پڑے گا۔