دیوندر سنگھ کی گرفتاری: گرفتار ہونے والے کشمیری پولیس افسر اور افضل گورو کا کیا تعلق تھا؟

دیوندر سنگھ کی گرفتاری: گرفتار ہونے والے کشمیری پولیس افسر اور افضل گورو کا کیا تعلق تھا؟

جنوبی کشمیر کے ترال قصبے کے رہنے والے 57 سالہ دیوندر سنگھ کا نام پہلی مرتبہ سُرخیوں میں اُس وقت آیا تھا جب 9 فروری 2013 کے روز پارلیمنٹ پر بیس سال قبل ہوئے مسلح حملے میں مجرم قرار دیئے گئے افضل گورو کو پھانسی ہوئی تھی۔

اور پھر چند روز بعد اخبارات میں افضل گورو سے منسوب ایک خط شائع ہوا تھا جس میں افضل نے دیوندر سنگھ کے بارے میں دعوی کیا تھا کہ اُسی نے افضل کو ایک غیرملکی عسکریت پسند کو دلی لے جانے، وہاں کرایہ کے مکان میں مقیم کرنے اور ایک گاڑی خریدنے کے لئے مجبور کیا تھا۔

گزشتہ سنیچر کو دیوندر سنگھ جموں جاتے ہوئے قاضی گنڈ کے مقام پر حزب المجاہدین کے اعلی کمانڈر سید نوید، اُس کے ساتھی آصف راتھر اور ایک وکیل عرفان احمد کے ہمراہ گرفتار کیا گیا۔ عرفان کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کو سرحدیں پھلانگنے میں مدد کرتا رہا ہے۔ گاڑی سے پانچ ہینڈ گرنیڈ یا ہتھ گولے بھی برآمد ہوئے اور بعد میں سرینگر میں دیوندر کی رہائش گاہ سے دو ’اے کے 47` بندوقیں بھی برآمد کی گئیں۔

نوید کے بارے میں پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے گزشتہ برس اکتوبر میں مغربی بنگال، بہار اور دوسری ریاستوں سے آئے گیارہ مزدور اور ٹرک ڈرائیوروں کو قتل کیا تھا۔ نوید بھی دراصل پولیس کانسٹیبل تھا جو دو سال قبل بڈگام کی ایک پوسٹ سے پانچ بندوقوں سمیت روپوش ہو کر حزب المجاہدین میں شامل ہوگیا۔

پولیس کا اصرار ہے کہ دیوندر سنگھ عسکریت پسندوں کو محض دلی میں محفوط پناہ گاہ دینا چاہتا تھا، لیکن گاڑی سے گرنیڈز کی برآمدگی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔

دیوندر سنگھ کو قریب سے جاننے والے بعض پولیس افسروں نے بتایا کہ وہ سرینگر کے امرسنگھ کالج سے گریجویشن کے بعد 1990میں پولیس میں سب انسپکٹر کے طور بھرتی ہوئے، تاہم اُس وقت کشمیر میں مسلح تحریک جاری تھی اور پولیس نے اسے دبانے کے لئے سپیشل آپریشن گروپ یا ایس او جی تشکیل دیا تھا، اس لیے دیوندر سنگھ اس میں شامل کیا گیا ہے۔ دیوندر سنگھ سپیشل آپریشن گروپ میں کافی سرگرم رہے اور ایک سال کے اندر اندر انہیں قبل از وقت ترقی دے کر انسپکٹر بنا دیا گیا۔

افضل گورو نے کہا تھا کہ ‘دیوندر مجھے ہراساں کرتے وقت کہتا کہ میرا چھوٹا سا کام کردو تو پھر میں تنگ نہیں کروں گا۔’
یہ وہی وہ دور تھا جب دیوندر کی ملاقات افضل گورو کے ساتھ ہوئی۔ افضل گورو کو جیش محمد کے عسکریت پسند کے طور گرفتارکیا گیا تھا اور انہوں نے رہائی کے بعد ادویات کی تجارت بحال کرکے تشدد سے کنارہ کرنے کی ضمانت دی تھی۔ لیکن افضل سے منسوب جو خط افضل کی پھانسی کے فوراً بعد منظرعام پر آیا اُس میں افضل نے تفصیل سے لکھا تھا کہ دیوندر نے ہی اُنہیں مجبور کیا تھا کہ وہ ایک عسکریت پسند کو دلی پہنچائے، وہاں اس کے عبوری قیام کا انتظام کرکے ایک گاڑی بھی خریدے۔ اس خط کے متن کی کوئی سرکاری تفتیش نہیں ہوئی۔ خط میں افضل نے لکھا تھا کہ ’دیوندر مجھے ہراساں کرتے وقت کہتا کہ میرا چھوٹا سا کام کردو تو پھر میں تنگ نہیں کروں گا۔‘

پولیس کے بعض اعلیٰ افسر تسلیم کرتے ہیں کہ دیوندر سنگھ کا ٹریک ریکارڈ دیکھتے ہوئے افضل سے منسوب خط میں کیے گئے دعوے کی باقاعدہ تفتیش ہونی چاہیَے تھی۔

پولیس ذرائع نے بی بی سی کو بتایا کہ دیوندر سنگھ کے خلاف گرفتار شدہ لوگوں کے والدین سے تاوان وصول کرنے، منشیات کی سمگلنگ، عمارتی لکڑی کی چوری اور ہتھیاروں کی سمگلنگ کی شکایات تھیں، لیکن حکام اکثر اُن چیزوں سے صرف نظر کرتے تھے۔ یہاں تک کہ اُنہیں 2003 میں بھارت کی طرف سے اقوام متحدہ کی امن فوج میں شامل کرکے مشرقی یورپ میں ایک سال تک تعینات کیا گیا۔ اور پھر پچھلے ہی سال انہیں بہادری کے صلے میں صدارتی میڈل سے بھی نوازا گیا۔

دیوندر سنگھ عسکریت پسندوں کے خلاف انسدادی کاروائیوں میں پیش پیش رہے اور بعض افسر کہتے ہیں کہ انہوں نے اس کا ناجائز فائدہ اُٹھایا۔ ایک افسر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ ایک مرتبہ دیوندر سنگھ نے بڑی مقدار میں چرس ضبط کرکے سمگلر کو گرفتار کرلیا لیکن تھوڑی دیر بعد ہی سمگلر کو رہا کردیا اور چرس خود فروخت کر دی۔

دوسرا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے افسر نے بتایا کہ ایک اور مرتبہ دیوندر نے عمارتی لکڑی سے بھرا ایک ٹرک اغوا کرلیا تھا لیکن جلد ہی یہ پتہ چلنے کے بعد کہ ٹرک ایک سابق وزیراعلیِ کے کسی رشتہ دار کا تھا، دیوندر کو ٹرک چھوڑنا پڑا۔

اپنے 30 سالہ پیشہ ورانہ زندگی میں دیوندر سنگھ پر کئی الزامات لگے، لیکن بھارتی پارلیمان پر حملے کی منصوبہ سازی میں پھانسی پانے والے افضل گورو کے ساتھ اُن کا تعلق بڑے سوالات کو جنم دے رہا ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ پارلیمنٹ پر حملے کے بعد بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی کشیدگی بڑھ گئی تھی اور سرحدوں پر فوج کشی کے بعد جب بھارت نے فوجیں واپس بلا لیں تو سینکڑوں فوجی بارودی سرنگوں کا شکار ہوکر مارے گئے تھے۔

اکثر مبصرین کہتے ہیں کہ دیوندر سنگھ کیس کی کئی گرہیں ہیں، لیکن پارلیمنٹ حملے کے ساتھ اُن کا نام آنا بھارت کی قومی سلامتی کی پالیسی پر سوالیہ لگا رہا ہے۔