پاکستان میں سردی کی لہر: پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، بلوچستان میں مختلف واقعات میں کم از کم 27 افراد ہلاک

پاکستان میں سردی کی لہر: پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر، بلوچستان میں مختلف واقعات میں کم از کم 27 افراد ہلاک

گذشتہ دو روز کے دوران مسلسل برفباری اور بارشوں کے باعث پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور صوبہ بلوچستان میں کم از کم 27 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے پی ڈی ایم اے بلوچستان کے مطابق صوبے میں مسلسل بارش اور برفباری کے باعث چھتیں گرنے سے اب تک 15 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

کوئٹہ میں ہمارے نامہ نگار محمد کاظم کے مطابق ضلع قلعہ سیف اللہ میں کان مہترزئی میں شدید برفباری کے باعث متعدد گاڑیوں میں پھنسے سینکڑوں افراد کو ریسکیو کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
تاہم اب سے کچھ دیر قبل کمشنر ژوب سہیل الرحمان نے نے مقامی ٹی وی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے اس بات کی تصدیق کی کہ گاڑیوں میں پھنسے تمام افراد کو ریسکیو کر لیا گیا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ اس وقت علاقے میں درجہ حرارت منفی 13 ہے جس کے باعث شاہراہ کو مکمل طور پر بحال نہیں کیا جا سکا جسے صبح تک بحال کر دیا جائے گا۔

دوسری جانب پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں قدرتی آفات سے نمٹنے والے ادارے ایس ڈی ایم اے کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دو روز کے دوران مختلف اضلاع میں مجموعی طور پر 12 افراد ہلاک اور 12 ہی زخمی ہوئے ہیں۔

ایس ڈی ایم اے ضلع نیلم کے ضلعی افسر اختر ایوب نے ہمارے نامہ نگار ایم اے زیب سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وادی نیلم میں برفانی تودے کی زد میں آ کر اور بارش کے باعث مکانات گرنے سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 10 ہے جبکہ ان واقعات میں 12 افراد زخمی ہوئے ہیں.

ان کے مطابق ضلع نیلم میں ان واقعات کے سبب 22 مکانات سمیت چار دوکانیں مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہوئی ہیں.

گلگت بلتستان کی صورتحال
سکردو سے صحافی موسٰی چلونکھا کے مطابق پاکستان کے شمالی علاقے گلگت بلتستان کے بلتستان ڈویژن کے چاروں اضلاع سکردو، کھرمنگ ،گنگچھے اور ضلع شگر میں ہفتے کے روز سے مسلسل برفباری کا سلسلہ جاری ہے۔

شدید برف باری کے باعث نظام زندگی مفلوج ہے اور وہاں کے لوگ گھروں کو محصور ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ سڑکوں پر ٹریفک نہ ہونے کے برابر ہے۔ بلتستان ڈویژن کے ہیڈکوارٹر سکردو سے باقی اضلاع کا زمینی رابطہ بھی منقطع ہو چکا ہے اور ایسے میں عوام کو سخت مشکلات اور پریشانی کا سامنا ہے۔

سکردو میں شدید برفباری کے باعث بجلی اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے، سکردو شہر میں تمام کارباری مراکز بھی 80 فیصد کے قریب بند ہیں جس کے باعث لوگوں کی اشیائے ضروریہ تک رسائی مشکل ہو گئی ہے۔

بلتستان کے چاروں اضلاع کے سرکاری دفتروں میں پیر اور آج (منگل) کے روز ملازمین کی حاضری نہ ہونے کے برابر رہی۔ بلتستان میں رواں برس سردی کی شدت میں کافی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، سکردو شہر میں درجہ حرارت منفی 21 تک ریکارڈ کیا گیا جبکہ بالائی علاقوں میں پارہ نقطہ انجماد سے منفی 28 تک گر گیا ہے جو کہ گزشتہ 30 برسوں میں سب سے زیادہ ہے۔

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمان نے برف باری کے باعث بند شاہراہوں کو برف باری کا سلسلہ رکنے کے بعد کھولنے کے لیے متعلقہ محکموں کو ہدایت بھی جاری کر دی ہیں۔ شدید برف باری اور خراب موسم کے باعث سکردو اور اسلام آباد کے درمیان پی آئی اے کی پرواز بھی کئی روز سے معطل ہے۔

کان مہترذئی کی تازہ ترین صورتحال
پی ایم ڈی اے بلوچستان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر کچھ ہی دیر قبل کی جانے والی ایک ٹویٹ کے مطابق کان مہترذئی کے علاقے سے تمام مسافروں کو کوئٹہ منتقل کیا جا رہا ہے۔

مقامی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر قلعہ سیف اللہ ڈاکٹر عتیق شاہوانی نے کہا ہے کہ ’اس وقت حالات قابو میں ہیں اور کسی مسافر کو جان کا خطرہ نہیں ہے۔‘

ان کے مطابق متاثرہ افراد کو خوراک، کمبل اور دیگر ضروری اشیا فراہم کر دی گئی ہیں جس کے بعد انھیں کوئٹہ منتقل کیا جائے گا۔ انھوں نے بتایا کہ اس ریسکیو آپریشن میں 250 اہکار اور 40 افسران حصہ لے رہے ہیں۔

وزیرِ اعلیٰ جام کمال نے بھی اب سے کچھ دیر قبل ایک ٹویٹ میں بتایا کہ امدادی ٹیمیں اب دونوں اطراف سے بحالی کا کام کرتی ہوئی ایک دوسرے کے قریب پہنچ رہی ہیں۔

پی ڈی ایم اے بلوچستان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر جاری کی گئی ایک ویڈیو میں ڈائریکٹر جنرل پی ڈی ایم اے، بلوچستان عمران زرکون کو دیکھا جا سکتا ہے جن کے مطابق اب تک تقریباً 40 کے قریب گاڑیوں کو واپس بھیجنے میں مدد کی گئی ہے جبکہ قریبی علاقے میں مسافروں کے ٹھہرنے کے انتظامات مکمل کر لیے گئے ہیں۔

دوسری جانب لیویز حکام کا کہنا ہے کہ کوئٹہ ژوب شاہراہ کان مہترزئی کے مقام پر بدستور بند ہے جبکہ علاقے میں برفانی طوفان شدت کے ساتھ جاری ہے جس کے باعث درجنوں چھوٹی گاڑیاں برف میں دب گئی ہیں۔

خیال رہے کہ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان جام کمال کی جانب سے گذشتہ روز ایک تنبیہ جاری کی گئی تھی جس میں رات میں سفرسے گریز کرنے کی اپیل بھی کی گئی تھی۔

کان مہترزئی میں شدید برفباری اور پھسلن
بلوچستان میں دو روز کے دوران جن علاقوں میں سب سے زیادہ برفباری ہوئی ہے ان میں کان مہترزئی کا علاقہ بھی شامل ہے۔

کوئٹہ سے اندازاً شمال مشرق میں سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اس علاقے کا شمار سرد ترین علاقوں میں ہوتا ہے۔

سڑکوں پر پھسلن کے باعث اس علاقے میں گاڑیوں کو آمدورفت میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

شدید سردی اور قرب و جوار کے علاقوں میں رہائش یا پناہ لینے کے لئے انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ افراد ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہو گئے تھے
پیر کی شام کے وقت پھسلن کے باعث اس علاقے میں گاڑیوں کی ایک بڑی تعداد پھنس گئی تھی جن میں تین سو سے پانچ سو قریب افراد موجود تھے۔

شدید سردی اور قرب و جوار کے علاقوں میں رہائش یا پناہ لینے کے لئے انتظام نہ ہونے کی وجہ سے یہ افراد ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہو گئے تھے۔ تاہم مقامی انتظامیہ کی جانب سے ان افراد کو ریسکیو کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا جو کہ رات گئے تک جاری رہا۔

بلوچستان میں مختلف شاہراہیں جزوی طور پر بند
پیر کے روز مسلسل برفباری اور بارش کے باعث کوئٹہ کراچی ہائی وےکو لکپاس، کوئٹہ سبّی ہائی وے کو دشت، کوئٹہ ژوب ہائی وے کو کان مہترزئی اور کوئٹہ چمن ہائی وے کو کوژک کے مقام پر بند کرنا پڑا تھا۔

دن کے وقت ان علاقوں میں ٹریفک کو کسی حد تک بحال کرنے کی کوشش کی گئی تھی تاہم رات کو سردی کی شدت میں اضافے اور پھسلن کی باعث گاڑیوں کی آمدورفت میں مشکل ہو گیا ہے۔

جہاں ان علاقوں میں برف باری کی وجہ سے لوگوں کو آمد ورفت میں مشکلات کا سامنا ہے وہیں کوئٹہ اور دیگر علاقوں میں جہاں جہاں گیس کی سہولت موجود ہے وہاں گیس کے پریشر میں کمی کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔

برفباری والے علاقوں کا رخ کرتے ہوئے کن چیزوں کی احتیاط کی جائے
صحافی زبیر خان سے بات کرتے ہوئے ایک مسافر احسن حمید کا کہنا تھا کہ ‘ہم برفباری کے دوران سفر کرنے کا مشورہ نہیں دیتے لیکن اگر کسی کو سفر کے دوران برفباری کا سامنا ہو تو انھیں بعض بنیادی قسم کے احتیاطی اقدامات ضرور کرنے چاہییں۔’

‘سب سے اہم یہ ہے کہ سیاح اپنی گاڑی کے پہیوں پر زنجیر باندھ کر سفر کریں تاکہ گاڑی برف پر نہ پھسلے۔ اگر آپ کی گاڑی فرنٹ وہیل ڈرائیو ہے تو یہ زنجیر سامنے والے پہیوں پر اور اگر بیک وہیل ڈرائیو ہے تو پچھلے پہیوں پر لگانی چاہیے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ‘پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر ایک اپنے ساتھ زنجیر لے کر آئے، یہ عام دستیاب ہے اس کی قیمت ایک ہزار سے لے کر پندرہ سو تک ہے۔ اگر وہ یہ اپنے ساتھ نہیں لائے تو یہ زنجیرں گلیات میں مختلف مقامات پر کرائے پر بھی دستیاب ہیں۔’

احسن نے بتایا کہ ‘ایک ٹرپ یعنی اگر چھانگلہ گلی سے نتھیاگلی تک، بڑی گاڑی کو ڈرائیور کی سہولت کے ہمراہ استعمال کیا جائے تو اس کا کرایہ پندرہ سو اور چھوٹی گاڑی کا ایک ہزار روپیہ مقرر کیا گیا ہے۔

گلیات اور مری کے روٹ پر 20 برس سے ڈرائیونگ کرنے والے سردار افضل میر کا کہنا تھا کہ ‘برفباری کے بعد سڑک پر سے برف ہٹا بھی دی گئی ہو تو بھی پھسلن ختم نہیں ہوتی اس لیے جب کوئی بھی سیاح اپنی گاڑی پر ایسے علاقوں کا رخ کرے تو اپنی گاڑی کو پہلے گیئر میں رکھے۔

‘اس کے علاوہ بار بار بریک استعمال کرنے سے گریز کریں، ٹائروں کو کم رفتار میں گھومنے دیں کیونکہ اس سے پھسلن کا خدشہ کم ہو جاتا ہے۔ ڈھلوان پر انجن اور گیئر کی طاقت استعمال کریں اور ایکسیلیٹر سے گاڑی کی رفتار کو معتدل رکھیں’۔

احسن حمید کے مطابق ایسے افراد اپنی گاڑیوں کے ٹائروں میں ہوا کم رکھیں، کمزور ٹائر اور گاڑی استعمال نہ کی جائے جبکہ گاڑی میں ایندھن پورا ہونا چاہیے۔

راستے میں کسی بھی مقام پر برفباری سے لینڈ سلائیڈنگ کا خطرہ موجود رہتا ہے اس لیے گرم کپڑے، خشک خوراک وغیرہ ساتھ رکھیں۔

انھوں نے کہا کہ اگر آپ بچوں اور خاندان کے ہمراہ سفر کر رہے ہیں تو ان کی ضرورت کی تمام اشیا گاڑی میں ہر وقت موجود ہونی چاہییں۔